سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(130) خطبہ جمعہ کی طوالت

  • 20391
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 703

سوال

(130) خطبہ جمعہ کی طوالت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ہمارے ہاں خطباء حضرات خطبہ جمعہ بہت لمبا کر تے ہیں جس سے سامعین اکتا جا تے ہیں اور نماز بہت ہی مختصر پڑھا تے ہیں، کیا قرآن و حدیث میں اس کا جواب ہے ،وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عقل مند اور صاحب بصیرت خطیب وہ ہے جو حالات پر نظر رکھتے ہوئے خطبہ دیتے وقت جامع کلمات استعمال کر ے اور مختصر گفتگو کرے کیونکہ مختصر اور جامع بات جلدی ذہن نشین ہو جا تی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طویل خطبے سے احتراز فرما تے تھے، چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت طویل وعظ و نصیحت نہیں فرما تے تھے بلکہ چند مختصر کلمات پر ہی اکتفا ء فرما تے تھے۔ [1] خطبہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درج ذیل ارشاد گرامی ہمارے واعظین اور خطباء کے لیے مشعل راہ ہے، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آدمی کی لمبی نماز اور چھوٹا خطبہ اس کی فقاھت کی علامت ہے۔[2]اس میں نماز اور خطبہ کا باہمی تقابل مراد نہیں ہے بلکہ عام نمازوں سے جمعہ کی نماز طویل اور عام خطبوں سے جمعہ کا خطبہ مختصر ہونا چاہیے ، چنانچہ حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور خطبہ اعتدال کے ساتھ ہو تے تھے۔ [3]

یہ بھی ذہن میں رہے کہ نماز بھی اتنی طویل نہ ہو کہ مقتدی اکتا جا ئیں اور وہ مشقت میں پڑ جائیں جیسا کہ ائمہ حضرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے متعلق تنبیہ فرمائی ہے۔ بہر حال ہمارے خطبا ء حضرات کو چاہیے کہ وہ وقت اور سامعین کی نزاکت کا خیال رکھیں اور اعتدال کے ساتھ نما ز اور خطبہ ادا کریں، دو اڑھائی گھنٹے پر مشتمل خطبہ جمعہ کسی طرح بھی درست نہیں ہے، خطبہ جامع ، مختصر اور حالات کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے اور نماز کا بھی جھٹکا کر نے کے بجائے اعتدال کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)


[1] ابو داؤد ، الصلوة: ۱۱۰۷۔

[2] صحیح مسلم، الجمعة: ۸۶۹۔

[3] مسلم، الجمعة: ۸۶۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:151

محدث فتویٰ

تبصرے