السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اہل حدیث مجریہ ۲۶ اگست عید الفطر ایڈیشن میں ص ۹ پر عید الفطر کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں شب عید کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اس رات مسلمانوں کو نفل ، تلاوت قرآن اور شب بیداری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں کئی ایک احباب نے ہم سے رابطہ کیا کہ اس رات کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کیونکہ اس سلسلہ میں جو احادیث بیان کی گئی ہیں وہ انتہائی ضعیف بلکہ بے اصل اور موضوع ہیں۔ مجھے بیان کر دہ احادیث کی حیثیت بیان کر نے کے لیے از خود نوٹس لینا پڑا تاکہ ہمارے مؤقر جریدہ اہل حدیث کی یکجہتی مجروح نہ ہو کیونکہ اس میں متعدد مرتبہ اس کے متعلق ہمارافتویٰ شائع ہو چکا ہے کہ شب عید میں خصوصی عبادت کا اہتمام کرنا احادیث سے ثابت نہیں ہے ۔ ذیل میں ہم بیان کر دہ احادیث کی اسنادی حیثیت بیان کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں قرآن و صحیح احادیث پر عمل پیرا ہو نے کی توفیق دے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سلسلہ میں پہلی حدیث بیان کی گئی ہے جسے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے دونوں عیدوں کی رات میں اخلاص کے ساتھ اور حصول ثواب کے لیے قیام کیا تو اس کا دل اُس (قیامت کے ) دن زندہ رہے گا جس دن دل مردہ ہو جائیں گے ۔ ‘‘[1]
یہ روایت انتہا درجہ کی ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں بقیہ بن ولید نامی راوی انتہائی مدلس ہے، محدثین کرام نے اس کی تدلیس سے اجتناب کر نے کی تلقین کی ہے ، علامہ البانی مرحوم نے اس روایت کو ‘‘ ضعیف جدا ً‘‘ یعنی انتہا درجہ کی ضعیف قرار دیا ہے۔ [2] بلکہ ایک مقام پر تو اسے موضوع اور خود ساختہ کہا ہے۔[3] پھر اس کی وجہ بیان کر تے ہوئے لکھتے ہیں :’’اس روایت میں بقیہ بن ولید نامی راوی بد ترین قسم کی تدلیس کرنے والا ہے، وہ ایسے کذاب لو گوں سے روایت کر تا ہے جو ثقہ راویوں سے بیان کر تے ہیں ، پھر کذاب راویوں کو حذف کر کے براہ راست ثقہ راویوں سے بیان کر نا شروع کر دیتا ہے، بعید نہیں کہ اس نے جس شیخ کو ساقط کر دیا ہے وہ اسی قسم کے کذاب راویوں سے ہو۔ [4] پھر ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: اس روایت کو علامہ اصفہانی نے عمر بن ہارون بلخی کی سند سے بیان کیا ہے۔
یہ روایت خود ساختہ ہے کیونکہ اسے بیان کر نے والا عمر بن ہارون بلخی کذاب راوی ہے ، میں نے پہلے اپنے شبہ کا اظہار کیا تھا لیکن اب مجھے یقین ہے کہ مذکورہ روایت اس کذاب کی وجہ سے موضوع ہے ، ممکن ہے کہ بقیہ بن ولید نے اسی کذاب سے اس روایت کو لیا ہو پھر اسے درمیان سے حذف کر کے براہ راست بیان کر دیا ہو۔[5]
علامہ موصوف نے ضعیف التر غیب و التر ھیب میں بھی اسے موضوع قرار دیا ہے۔ [6]
واضح رہے کہ بقیہ بن ولید کی تدلیس سے محدثین نے اجتناب کر نے کی تلقین کی ہے ، چنانچہ علامہ ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے حافظ ابو مسھر کا قول بایں الفاظ بیان کیا ہے :’’ بقیہ کی احادیث صاف ستھری نہیں ہو تیں، اس کی احادیث سے ایک طرف رہنا چاہیے۔ [7]
اسل سلسلہ میں دوسری حدیث بایں الفاظ بیان کی گئی ہے کہ مشہور صحابی رسول حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو ان پانچ راتوں میں جاگے گا ( یعنی عبادت میں مصروف رہے گا ) اس کے لیے جنت واجب ہو جائےگی۔ 1 ذو الحجہ کی آٹھویں رات۔ 2 ذو الحجہ کی نویں رات، 3 عید الاضحی کی رات 4 عبد الفطر کی رات 5 شعبان کی پندرھوں رات۔[8]
یہ روایت بھی بے اصل ہے ۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے بھی موضوع قرار دیا ہے۔[9]علاوہ ازیں علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ کا اس کتاب ’’الترغیب و الترھیب ‘‘ میں منہج یہ ہے کہ جس حدیث کی ابتدا ء مجہول صیغہ سے کریں یعنی اسے روی سے بیان وہ روایت ضعیف یا موضوع ہو تی ہے، اس حدیث کو بھی انھوں نے صیغہ تمریض سے شروع کیا ہے۔ اس روایت کو علامہ نصر مقدسی نے بھی بیان کیا ہے ، اس میں چار راتوں کا ذکر ہے، پانچویں رات یعنی پندرھویں شعبان کا ذکر نہیں ہے۔ اس روایت کی سند میں عبد الرحیم بن زید العمی نامی راوی کذاب اور متروک ہے، اس سے بیان کر نے والا سوید بن سعید بھی ضعیف ہے۔ اس سند کے متعلق علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :’’ظلمات بعضھا فوق بعض ‘‘ اس کی سند میں کئی ایک اندھیرے ہیں۔[10]
اس سلسلہ میں تیسری روایت بھی بیان کی جا تی ہے جو شخص عید الفطر اور عید الاضحی کی رات عبادت کر تا رہا، اس کا دل اس دن بھی مر دہ نہیں ہو گا جس دن (قیامت کے دن ) تمام دل مر دہ ہو جا ئیں گے۔ اس روایت کو حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے ۔[11]
انھوں نے بتایا ہے کہ اس روایت میں عمر بن ہارون بلخی نامی راوی ہے ، اس کے متعلق ہم پہلے بھی وضاحت کر آئے ہیں ، علامہ ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق مزید لکھا ہے : ابن معین نے اس کو کذاب کہا ہے اور محدثین کی ایک جماعت نے اسے متروک قرار دیا ہے۔[12]میزان الاعتدال میں اس کے متعلق ’’کذاب خبیث‘‘ کے الفاظ استعمال ہو ئے ہیں۔ [13]
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ عید کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک سوئے رہے اور آپ نے شب بیداری نہیں فرمائی، عیدین کی رات عبادت کر نے کے متعلق کوئی صحیح روایت مروی نہیں ہے ۔ [14] محدثین کرام کی مندرجہ بالا تصریحات کے پیش نظر ہمیں چاہیے کہ عیدین کی رات خصوصی عبادت سے پر ہیز کریں، ہاں اگر کوئی پابندی سے تہجد گزار ہے تو حسب عادت اس رات نوافل ادا کر نے میں چنداں حرج نہیں۔ (واللہ اعلم)
[1] ابن ماجه، الصیام: ۱۷۸۲۔
[2] سلسلہ الاحادیث الضعیفه: ۵۲۱۔
[3] ضعیف ابن ماجه: ۳۹۵، ص ۱۳۸۔
[4] سلسلہ الاحادیث الضعیفہ، ص ۱۱، ج ۲۔
[5] سلسلة الاحادیث الضعیفہ، ص ۲۶۸، ج۱۱۔
[6] ص ۳۳۴، ج ۱۔
[7] میزان الاعتدال ، ص ۳۳۲، ج ۱۔
[8] التر غیب و الترھیب:ص ۲۷۳، ج ۱۔
[9] ضعیف التر غیب و التر ھیب ، ص ۱۷۔
[10] التر غیب و التر ھیب: ص ۱۵۲، ج ۱۔
[11] مجمع الزوائد :ص۱۹۸، ج ۲۔
[12] تلخیص المستدرك ، ص ۸۷، ج ۴۔
[13] ص ۲۲۸، ج ۳۔
[14] زاد المعاد، ص ۱۵۶، ج ۱۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب