السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں عام طور پر جمعہ کا خطبہ کھڑے ہو کر دیا جا تا ہے ، لیکن کچھ خطباء بیٹھ کر خطبہ دیتے ہیں، قرآن و حدیث کے مطابق بیٹھ کر خطبہ دینے کی کیا حیثیت ہے ؟ آیا متقدمین میں اس کے متعلق کوئی اختلاف ہے ، وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ جمعہ کی کیفیت بایں الفاظ بیان ہوئی ہے:’’ اور جب انھوں نے کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو ادھر بھاگ گئے اور آپ کو اکیلا کھڑا چھوڑ دیا۔ ‘‘[1]
اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مدنی دور کی ابتدائی زندگی معاشی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے انتہائی پریشان کن تھی ، مہاجرین کی آبادکاری کے علاوہ اہل مکہ نے بھی اہل مدینہ کی معاشی ناکہ بندی کر رکھی تھی جس کی وجہ سے غلہ، اناج اور کمیاب تھا، انہی ایام کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھےکہ شام سے ایک غلہ کا تجارتی قافلہ مدینہ آ پہنچا اور انھوں نے اپنی آمد کی اطلاع طبلے بجا کر دی ، خطبہ سننے والے مسلمان بھی محض اس خیال سے کہ اگر دیر سے گئے تو سارا غلہ ہی نہ بک جائے، خطبہ چھوڑ کر ادھر چلے گئے اور آپ کے پاس صرف بارہ آدمیوں کے علاوہ کوئی نہ رہا، اس وقت یہ یت نازل ہوئی۔[2]
اس آیت سے ضمناً یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام کو کھڑے ہو کر خطبہ دینا چاہیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زندگی بھر یہی معمول تھا اور آپ کا یہ معمول وجوب پر دلالت کر تا ہے جیسا کہ جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر دینا چاہیے ، اس سلسلے میں چند احادیث حسب ذیل ہیں:
1 حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ دینے کی کیفیت بیان کر تے ہوئے فرما تے ہیں :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر ارشاد فرما تے تھے پھر بیٹھ جا تے پھر کھڑے ہو تے جیسا کہ اب تم لوگ کر تے ہو۔ ‘‘[3]
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ان الفاظ سے عنوان قائم کیا ہے :’’ کھڑے ہو کر خطبہ دینا۔ ‘‘[4]
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے کہ آپ کے سامنے ایک آدمی کھڑا ہوا، اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمارے مال مویشی قحط سالی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے ہیں آپ بارش کی دعا فرمائیں۔ [5]
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑےہو کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے اور جو شخص یہ بات کرے کہ آپ نے بیٹھ کر خطبہ دیا ہے ، اس نے جھوٹ بولا ہے۔[6]
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف لائے تو انھوں نے دیکھا کہ عبد الرحمن بن ام الحکم بیٹھ کر خطبہ جمعہ دے رہا ہے ، آپ نے دیکھ کر فرمایا: اس خبیث کو دیکھو، یہ بیٹھ کر خطبہ دیتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :’’جب انھوں نے خرید و فروخت یا کھیل تماشا دیکھا تو اس کی طرف بھاگ نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑا ہوا چھوڑ گئے۔ ‘‘[7]
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ آیت کریمہ سے کھڑے ہو کر خطبہ دینے کا استدلال کیا ہے اور بیٹھ کر خطبہ دینے والے کو سخت الفاظ کہے ہیں۔ ان دلائل سے معلوم ہو تا ہے کہ جمعہ کے دن خطبہ کھڑے ہو کر دینا چاہیے، ہاں اگر کوئی عذر ہو تو بیٹھ کر دیا جا سکتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پیٹ کی چربی اور گوشت زیادہ ہو گیا تو انھوں نے بیٹھ کر خطبہ دیا۔ [8]
اس حدیث میں عذر کی وضاحت ہے، اگر خطیب بیمار ہے یا ضعیف و نا تواں ہے تو بالاتفاق بیٹھ کر خطبہ دیا جا سکتا ہے بصورت دیگر کھڑے ہو کر خطبہ دینا واجب ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل اس پر دلالت کر تا ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] الجمعة:۱۱۔
[2] صحیح البخاری، الجمعة: ۹۳۲۔
[3] صحیح بخاری، الجمعة: ۹۲۰۔
[4] صحیح بخاری، الجمعة باب نمبر ۲۷۔
[5] صحیح بخاری، الاستسقاء: ۱۰۱۴۔
[6] ابو داؤد، الصلوة: باب نمبر ۲۱۹۔
[7] صحیح مسلم، الجمعة: ۲۰۰۱۔
[8] مصنف ابن ابی شیبه: ص ۱۱۳، ج ۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب