السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سنا ہے کہ اگر جمعہ کے دن عید ہو تو یہ ملک اور حکمرانوں کے لیے بہت بھاری ہو تاہے ، ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے ؟ کتاب و سنت کی روشنی میں کیا ہدایات ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ کے نظام کے مطابق ہفتہ کے سات دنوں میں کسی بھی دن عید آ سکتی ہے اور اگر یہ جمعہ کے دن آ جائے تو مسلمانوں کے لیے دو عیدیں جمع ہو جا تی ہیں، لیکن لوگوں نے اسے غلط رنگ دے کر مشہور کر رکھا ہے کہ ایسی عید ملک اور حکمرانوں کے لیے بہت بھاری ہو تی ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ۔ چنانچہ حضرت ابو عبید بیان کر تے ہیں : ’’ میں ایک مرتبہ عید کے موقع پر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ہمراہ حاضر ہوا اور یہ جمعہ کا دن تھا۔ انھوں نے خطبہ سے پہلے نماز عید پڑھائی پھر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لو گو!بلا شبہ اس دن دو عیدیں جمع ہو گئی ہیں لہٰذا عوالی کے لو گوں میں سے جو نماز جمعہ کا انتظار کرنا چاہے کر لے اور جو واپس جانا چاہے تو میں اسے واپس جا نے کی اجازت دیتا ہوں۔ [1]
جب جمعہ کے دن عید آ جائے تو شرعی طور پر کیا کرنا چاہیے ؟ اسلامی تعلیمات کے مطابق نماز عید تو معمول کے مطابق ہی ادا کی جائے گی البتہ جمعہ کے متعلق اختیار ہے اگر کوئی چاہے تو مسجد میں حاضر ہو کر جمعہ پڑھ لے اور اگر چاہے تو جمعہ نہ پڑھے، البتہ جمعہ نہ پڑھنے کی صورت میں نماز ظہر کی ادائیگی ضروری ہے۔ خواہ اکیلا پڑھے یا با جماعت ادا کر لے لیکن اسے منحوس خیال کر نے کی بات خود ساختہ ہے، کتاب و سنت سے کوئی ایسی بات ثابت نہیں، اگر ان دونوں کے اجتماع سے نحوست یا بد شگونی کا مسئلہ ہو تا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ہمیں آگاہ فرماتے ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جمعہ کے دن عید آئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ’’تمہارے اس دن میں دو عیدیں جمع ہو چکی ہیں، اگر کوئی چاہے تو نماز عید جمعہ کی ادائیگی سے کفایت کر جائے گی لیکن ہم جمعہ ادا کریں گے۔ ‘‘[2]
اس حدیث کے مطابق جو شخص جمعہ کے دن نماز عید پڑھ لے تو اسے رخصت ہے کہ جمعہ نہ پڑھے لیکن امام کے لیے عزیمت یہ ہے کہ وہ جمعہ کے لیے مسجد میں حاضر ہو ،تا کہ وہ مسجد میں آ نے والوں اور نماز عید نہ پڑھنے والوں کو جمعہ پڑھائے کیونکہ ایاس بن ابی رملہ شامی سے مروی ایک حدیث میں ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں اس وقت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا، جب انھوں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا کبھی ایسا موقع ملا کہ ایک ہی دن میں دو عیدیں جمع ہو گئی ہوں تو انھوں نے فرمایا: جی ہاں! حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کس طرح عمل کیا ؟ انھوں نے فرمایا:’’آپ نے نماز عید پڑھائی اور جمعہ کے لیے رخصت دے دی اور فرمایا کہ جو شخص پڑھنا چاہے وہ پڑھ لے۔ ‘‘[3] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عام لو گوں کے لیے رخصت ہے لیکن امام کو عزیمت پر عمل کرنا ہو گا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ اور عید میں سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ تلاوت کر تے تھے۔ اور جب کبھی جمعہ اور عید ایک ہی دن میں جمع ہو جاتے تو دونوں نمازوں میں ہی ان دونوں سورتوں کی تلاوت فرماتے تھے۔[4]
یہ بھی واضح رہے کہ جو لوگ نماز عید پڑھنے کے بعد نماز جمعہ میں شریک نہ ہوں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز ظہر چار رکعت ادا کریں خواہ اکیلے اکیلے پڑھیں یا با جماعت ادا کریں۔ جیسا کہ عطا ء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ہمیں جمعہ کے دن نماز عید پہلے وقت میں پڑھا ئی پھر جمعہ کے لیے گئے تو آپ باہر نہ نکلے اور ہم نے اکیلے اکیلے ہی نماز پڑھ ہی۔ اس وقت حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ طائف میں تھے، جب وہ واپس آئے تو ہم نے ان سے اس بات کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا کہ انھوں نے سنت پر عمل کیا ہے۔ [5]
ممکن ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے نماز ظہر گھر میں ادا کر لی ہو، اس لیےوہ باہر نہ نکلے ہوں، بہر حال امام کو رخصت پر عمل کر نے کی بجائے عزیمت پر عمل کرنا چاہیے اور اسے جمعہ پڑھانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہاں اگر نمازیوں کی تعداد محدود اور سب کے اتفاق سے جمعہ نہ پڑھنے کا اتفاق کر لیا گیا ہو تو اس صورت میں سب نماز ظہر ادا کریں گے۔ (واللہ اعلم)
[1] بخاری الاضاحی: ۵۵۷۲۔
[2] ابو داؤد، الجمعة: ۱۰۶۹۔
[3] ابو داؤد، الصلوة: ۱۰۷۰۔
[4] صحیح مسلم، الجمعة: ۸۷۸۔
[5] ابو داؤد، الصلوة : ۱۰۷۱۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب