السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے جمعہ ادا کر نے کے لیے مسجد میں خطبہ شروع ہو نے سے پہلے حاضری دی ، نوافل وغیرہ ادا کیے ، خطبہ جمعہ سنا، جب نماز شروع ہو ئی تو ایک رکعت پڑھنے کے بعد اس کا وضو ٹوٹ گیا، وضو کر تے کر تے جماعت مکمل ہو گئی، اب یہ شخص نماز جمعہ پڑھے گا یا اسے ظہر ادا کر نا ہو گی۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
: جس آدمی نے نماز جمعہ کے لیے اس قدر دوڑ دھوپ کی ہے امید ہے کہ اسے اللہ کے ہاں اس کا پورا پورا اجر ملے گا ، اگر چہ ایک مجبوری کی وجہ سے اسے نماز توڑنا پڑی پھر وضو کر تے کر تے اس کی جماعت نکل گئی لیکن ہمارے رجحان کے مطابق اب اسے نماز ظہر پڑھنا ہو گی، کیونکہ نماز کے لیے کم از کم ایک رکعت پانا ضروری ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی نماز کی ایک رکعت حاصل کر لی تو اس نے بلا شبہ مکمل نماز حاصل کر لی۔ ‘‘[1]ایک روایت میں جمعہ کی نماز کے متعلق صراحت ہے کہ :’’ جسے جمعہ کی ایک رکعت ملے وہ اس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے۔‘‘[2]
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک رکعت امام کے ساتھ مل گئی تو اس کی نماز جمعہ کی نماز شمار ہو گی ، اس لیے اسے صرف ایک رکعت مزید پڑھ کر سلام پھیر دینا چاہیے۔ چنانچہ دوسری روایت میں ہے : ’’جس نے نماز جمعہ کی ایک رکعت پا لی اس نے نماز جمعہ کو پا لیا، ہاں جو رکعت رہ گئی ہے اسے پورا کر لے ۔‘‘[3]
ان روایات میں اشارہ ہے کہ اگر ایک رکعت سے کم ملے تو اس کی نماز جمعہ نہیں ہو گی تب اسے نماز ظہر پڑھنی چاہیے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی موقف ہے کہ اگر نمازی کو نماز جمعہ کی مکمل ایک رکعت نہ ملے تو ظہر کی چار رکعات پڑھنی چاہئیں ، اس کی نماز جمعہ نہیں ہو ئی، حدیث کا یہی تقاضا ہے۔ اگر چہ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ اگر کوئی دوسری رکعت کے تشہد میں شامل ہوا تب بھی اسے اپنی بقیہ نماز جمعہ مکمل کرنا چاہیے۔ صورت مسؤلہ میں تو اسے جماعت کے ساتھ کچھ بھی نہیں ملا ، جو رکعت ملی تھی وہ بھی وضو ٹوٹنے سے ختم ہو گئی، اس لیے اسے پوری نماز ظہر پڑھنا ہو گی۔ (واللہ اعلم)
[1] بخاری، مواقیت الصلوة:۵۸۰۔
[2] ابن ماجه ، اقامة الصلوة: ۱۱۲۱۔
[3] بیہقی ص ۲۰۴، ج ۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب