سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(118) عید کے مہینوں میں کمی

  • 20379
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 676

سوال

(118) عید کے مہینوں میں کمی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث میں ہے کہ ’’عید کے دو مہینوں میں یعنی رمضان اور ذوالحجہ میں کمی نہیں آتی‘‘ اس حدیث کا مطلب واضح کریں، نیز حدیث کی نشاندہی بھی کر دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ عید کے دونوں مہینے کم نہیں ہوتے۔‘‘[1]

اس کے بعد حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں بیان کیا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ عیدین کے دو مہینے یعنی رمضان اور ذوالحجہ ناقص نہیں رہتے۔‘‘ (۱۹۱۲) اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے اہل علم نے درج ذیل اقوال بیان کیے ہیں:

٭کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ اس حدیث کو ظاہر پر محمول کیا جائے یعنی رمضان اور ذوالحجہ ہمیشہ تیس دن کے ہوں گے۔ لیکن معنی ہمارے مشاہدے کے خلاف ہے کیونکہ اکثر اوقات ان میں ایک یا دونوں انتیس ، انتیس دن کے ہوتے ہیں۔

٭کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ بیک وقت دونوں میں کمی نہیں ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر رمضان کا مہینہ انتیس دن کا ہوا تو ذوالحجہ تیس دن کا ہو گا اور اگر ذوالحجہ انتیس دن کا ہوا تو رمضان کے تیس روزے ہوں گے۔ لیکن یہ معنی بھی درست نہیں کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی سال میں دونوں انتیس انتیس دن کے ہوتے ہیں۔

اگرچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاد امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے اس کا معنی بیان کیا ہے کہ فضیلت و برتری میں کمی نہیں آتی اگر ان میں کوئی ایک یا دونوں انتیس دن کے ہوں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہی معنی درست معلوم ہوتا ہے۔ ہمارا بھی یہی رجحان ہے کہ اگر رمضان کے انتیس دن ہوئے تو اجر و ثواب تیس دنوں کا ملے گا یعنی گنتی میں کمی ہو سکتی ہے لیکن اجروثواب میں کمی نہیں ہو گی۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ دوسرے اقوال بھی بیان کئے ہیں جس کی تفصیل فتح الباری ( ص ۱۶۰۔ ۱۶۱ ج۴) میں دیکھی جا سکتی ہے۔


[1] صحیح البخاري، الصوم باب ۱۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:141

محدث فتویٰ

تبصرے