السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عالم اسلام میں اتحاد و یگانگت کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دن روزہ رکھا جائے اور ایک ہی دن عید کی جائے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا احکام ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ماہرین فلکیات کے آلات اور ان کے حساب کے ہم پابند نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارے ماہ سال کا حساب ان کے علم سے وابستہ ہے، بلکہ ہمیں اس بات کاحکم دیا گیا ہےکہ چاند دیکھ کر روزہ رکھیں اور چاند یکھ کر عید کریں۔ ہمارا قمری مہینہ کبھی انتیس کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دنوں کا ہوتا ہے۔ شرعی اعتبار سے اگر کہیں چاند نظر آ جائے یا کسی دوسری جگہ سے چاند نظر آنے کی خبر پہنچ جائے تو اس علاقہ کے تمام لوگوں کو روزہ رکھنا یا عیدکرنا ضروری ہو جاتا ہے۔چاند دیکھنے سے نیا مہینہ شروع ہو جائے گا البتہ ایسے مقامات جن میں اتنا فاصلہ ہو کہ چاند دیکھنے میں ایک یا دو دن کا فرق پڑ سکتا ہے وہاں ہر علاقے کی اپنی رؤیت ہو گی۔ آج کل اسلامی ممالک اسقدر چھوٹے چھوٹےہیں کہ وہاں کسی بھی جگہ چاند نظر آجائے تو وہ پورے ملک میں نظر آ سکتا ہے لہٰذا ایک ملک میں کسی جگہ چاند نظر آنے سے سارے ملک میں اس کا عتبار کیا جائے گا۔ البتہ مختلف ممالک میں چاند مختلف ہو سکتا ہے مثلاً سعودی عرب اور پاکستان ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر ہیں لہٰذا ان ممالک میں ہر ملک کی اپنی رؤیت ہو گی جیسا کہ حضرت کریب بیان کرتے ہیں:
’’ مجھے ام فضل رضی اللہ عنہا نے کسی کام کے لئے علاقہ شام میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں بھیجا اور ان کا کام پورا کیا، میں ا بھی شام میں ہی تھا کہ رمضان المبارک کا چاند طلوع ہو گیا، میں نے بذات خود جمعہ کی رات چاند دیکھا، پھر میں رمضان کے آخر میں مدینہ طیبہ واپس آیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے چاند کا ذکر کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا: ’’ تم نے رمضان کا چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے عرض کیا : ’’ ہم نے جمعہ کی رات دیکھا تھا ، انہوں نے فرمایا: ’’ تم نے خود دیکھا تھا‘‘ میں نے عرض کیا : ’’ جی ہاں ‘‘ میں نے خود دیکھا تھا، دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا تھا۔ اس رؤیت کے مطابق حضرات امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگوں نے روزہ رکھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا تھا۔ ہم تو تیس دن مکمل ہونے تک روزے رکھتے رہیں گے یا ہمیں چاند نظر آ جائے۔ میں نے عرض کیا، کیا تمہیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی رؤیت کافی نہیں؟ انہوں نے فرمایا : نہیں ، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا تھا۔[1]
اس حدیث میں ’’ یہی حکم ‘‘ سے مراد ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھنا اور چاند دیکھ کر عید کرنا ‘‘ ہے۔ اس سلسلہ میں چند اصول حسب ذیل ہیں : چاند دیکھنے کے سلسلہ میں انہیں مد نظر رکھنا چاہیے۔
٭جب ایک شہر میں چاند نظر آ جائے تو اس سے ملتے جُلتے طول و بلد پر واقع تمام شہروں میں اس کی رؤیت کا اعتبار کیا جائے گا خواہ ان کا فاصلہ ہزاروں میل ہی کیوں نہ ہو، مثلاً کراچی اور ڈھاکہ دونوں ایک ہی طول و بلد پر واقع ہیں، ان میں سے کسی کی رؤیت دوسرے کےلئے معتبر ہو گی۔
٭کسی شہر میں چاند نظر آ جائے تو اس سے مغرب میں واقع تمام علاقوں میں اس کی رؤیت کا اعتبار کیا جائے گا۔ وہاں دیکھنے کی ضرورت نہیں خواہ فاصلہ ہزاروں میل ہو مثلاً پاکستان میں دیکھا ہوا چاند سعودی عرب کے لئے معتبر ہو گا البتہ اس کا الٹ ضروری نہیں یعنی سعودی عرب کا چاند ہمارے پاکستان کےلئے معتبر نہیں ہو گا۔
٭نشیبی علاقہ میں چاند نظر آ جائے تو بالائی علاقوں میں اس کا اعتبار کیا جائے گا البتہ بالائی علاقے میں چاند کی رؤیت نشیبی علاقوں کے لئے معتبر نہیں ہو گی، اس سلسلہ میں علمائے رصد اور ماہرین فلکیات سے راہنمائی لی جا سکتی ہے۔ ( واللہ اعلم)
[1] سنن النسائي ، الصیام : ۲۱۱۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب