السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یکجہتی کے پیش نظر عیدین کی نماز سعودیہ کے مطابق کیوں نہیں ادا کی جاتی ، اس جذباتی سوال کا شافی جواب دیں کہ سعودی عرب کے ساتھ نماز عیدین کیوں نہیں ادا کی جاتی ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ ہماری ذہنی اور مذہبی وابستگی ہے ۔ غالباً مذکورہ سوال کا پس منظر بھی یہی معلوم ہوتا ہے ، مگر دین اسلام ہم سے اپنے اصولوں پر قائم رہنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ رمضان کے روزے اور عیدین کے متعلق دین اسلام کا اصول یہ ہے کہ : ’’ چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کی ابتداء کرو اور چاند دیکھ کر ہی روزوں کو ختم کرو یعنی عیدین مناؤ۔‘‘[1]
ایک روایت میں ہےکہ ’’ چاند دیکھ کر ہی حج اور قربانی کرو۔ ‘‘[2]
اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ ہر شخص چاند دیکھے بلکہ کوئی ایک معتبر آدمی بھی چاند دیکھ لے یا کسی اور جگہ سے چاند نظر آنے کی خبر پہنچ جائے تو اس علاقے کے تمام لوگ روزہ رکھیں گے یا عیدین کریں اور نیا مہینہ شروع ہو جائے گا۔ البتہ یہ تحقیق کرنا ضروری ہے کہ دونوں جگہوں میں اتنا فاصلہ نہ ہو جتنے فاصلے سے چاند یکھنے میں ایک یا دو دن کا فرق پڑ سکتا ہو۔ آج کل ہر اسلامی ملک اتنا چھوٹا ہے کہ اس ملک میں کسی بھی جگہ چاند نظر آئے تو پورے ملک میں اس کا اعتبار کیا جائے گا۔ البتہ مختلف ممالک میں چاند مختلف ہو سکتا ہے کیونکہ ان کا مطلع الگ الگ ہو سکتا ہے۔ جن ممالک کا مطلع الگ الگ ہے وہاں کے لوگوں کو کسی دوسرے ملک کے تابع کرنا قرین قیاس نہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مدینہ طیبہ میں رہتے ہوئے ملک شام کے چاند کا اعتبار نہیں کیا تھا بلکہ انہوں صاف کہہ دیا تھا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو۔ [3]
ہم دیکھتے ہیں کہ فرنگی اور دین دشمن یہود و نصاریٰ ایک ہی دن اپنی عید مناتے ہیں۔ ان کی تقلید میں ہمارے اندر بھی یہ خواہش مچلتی ہے کہ ہم مسلمان ایک ہی دن عید کر یں لیکن ہم لوگ تو شریعت کے پابند ہیں ۔ اسلامی تعلیمات میں کسی بھی دور دراز علاقے والوں کو کسی مخصوص علاقے یا سعودی عرب کے تابع نہیں کیا گیا اور یہ ماضی بعید میں ممکن بھی نہیں تھا۔ خود علماء عرب بھی اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ تمام دنیا میں اہل اسلام کو سعودی عرب کے تابع کر دیا جائے۔ دور صحابہ اور اتباع صحابہ میں ایسا کبھی نہیں کیا گیا تو اب اس حکم کو کیوں تبدیل کر دیا جائے۔ لہٰذا ہر علاقے میں اس کی رؤیت کا اعتبار ہو گا یا پھر قرب و جوار کی رؤیت کا اعتبار کیا ائے گا مگر دور دراز کے علاقوں میں یکجہتی کے طور پر ایک ہی دن عید کرنا فرنگی تہذیب ہے، اسلامی تہذیب میں ایسا ممکن نہیں۔ ( واللہ اعلم)
[1] سنن النسائي، الصیام : ۲۱۱۹۔
[2] سنن النسائي ، الصیام : ۲۱۱۸۔
[3] سنن النسائي، الصیام : ۲۱۱۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب