السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عیدگاہ میں منبر کا اہتمام کرنا چاہیے، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کا عمل کیاہے، کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں جمعۃ المبارک اور عام وعظ و نصیحت کے لئے منبر پر بیٹھتے تھے لیکن خطبہ عیدین کے لئے عیدگاہ میں منبر بنانے یا اس کا اہتمام کرنے کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث سے نہیں ملتا ۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ عید گاہ کی طرف منبر کا اہتمام کئے بغیر جانا۔‘‘
پھر انہوں نے اس عنوان کو ثابت کرنے کےلئے اس حدیث سے استنباط کیا ہے: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ تشریف لے جاتے، عید الفطر اورعید الاضحی کے دن عیدگاہ میں جا کر پہلا کام یہ کرتے کہ نماز پڑھاتے ، پھر سلام پھیر کر لوگوں کے بالمقابل کھڑے ہوجاتے۔[1]
’’لوگوں کے بالمقابل کھڑے ہو جاتے ‘‘ کے الفاظ سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ عیدگاہ میں منبر وغیرہ کا اہتمام نہیں کیا جاتا تھا۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں کہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا تا آنکہ میں امیر مدینہ مروان بن حکم کے ہمراہ عیدالاضحی یا عید الفطر کے دن عیدگاہ گیا، میں نے وہاں دیکھا کہ کثیر بن صلت نے منبر بنا رکھا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عیدگا ہ میں منبر بنانے کا اہتمام مروان بن حکم نے کیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین سے عیدگاہ میں منبر لے جانے یا وہاں منبر بنانے کا ثبوت نہیں ملتا۔ بلکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ مروان بن حکم نے عیدگاہ میں منبر کا اہتمام کیا اور نماز سے پہلے عید کا خطبہ دیا تو حاضرین میں سے ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: ’’ اے مروان ! تو نے سنت کی مخالفت کی ہے، تو نے عیدگاہ میں منبر کا اہتمام کیا ہے جبکہ اس سے پہلے یہ کام نہیں کیا جاتا تھا۔‘‘[2]
البتہ ایک دوسری حدیث میں اس امر کی بھی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا پنی سواری پر خطبہ عید ارشاد فرمایا۔[3]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی سواری پر بیٹھ کر خطبہ عید دیا جا سکتا ہے لیکن منبروغیرہ کا اہتمام درست نہیں۔ ( واللہ اعلم)
[1] صحیح البخاري ، العیدین :۹۵۶۔
[2] سنن أبي داؤد ، الصلٰوة : ۱۱۴۰۔
[3] صحیح ابن خزیمة ، الصلوٰة : ۱۴۴۵۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب