السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب موذن ، فرض نماز کے لیے اقامت کہتا ہے تو کچھ نمازی اپنی نماز جاری رکھتے ہیں اور اسے مختصر کر کے جماعت میں شامل ہو جا تے ہیں ، کیا ایسا کرنا جائز ہے ، قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب موذن، فرض نماز کے لیے اقامت شروع کر دے تو پھر کسی کے لیے کوئی دوسری نماز الگ طور پر پڑھنے کی اجازت نہیں، بلکہ اسے اپنی نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہو جانا چاہیے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ جب نماز کی اقامت کہی جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہو تی۔‘‘[1]
ایک روایت میں ہے :’’پھر کوئی نماز نہیں ہو تی سوائے اس نماز کے جس کی اقامت کہی گئی ہو۔ ‘‘[2]
ان احادیث سے پتہ چلتاہے کہ فرض نماز کی اقامت سن کر دوسری کوئی نماز نہ شروع کی جائے بلکہ اگر کوئی نماز میں مشغول ہو تو اسے توڑ کراُس نمازمیں شامل ہو جائے جس کی اقامت کہی گئی ہے۔ نمازی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے مختصر کر کے جلدی جلدی ادا کر ے بلکہ اسے چاہیے کہ اقامت کے ہو تے ہی سنت یا نفل کو ختم کر کے جماعت میں شامل ہو جائے اور اپنی سنتیں بعد میں ادا کرے۔ کیونکہ اقامت کے بعد پڑھی جانے والی نماز کا وجود شرعی طور پر منفی ہے جیسا کہ حدیث میں اس امر کی صراحت ہے، اس سلسلہ میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’اقامت کے بعد نفل نماز کو چھوڑ کر امام کے ساتھ شامل ہونے میں یہ حکمت ہے کہ انسان شروع ہی سے فرض نماز کے لیے فارغ ہو کر امام کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے ، فرض نماز کی محافظت، نفل نماز میں مشغول ہونے سے بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کے ساتھ اختلاف کرنے سےمنع فرمایا ہے۔
ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اسے تکبیر تحریمہ حاصل ہو جا تی ہے اور امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ میں شامل ہو نے سے اس کا مخصوص اجر و ثواب ملتا ہے۔ ‘‘[3]
بہر حال اقامت کے شروع ہو تے ہی اپنی نماز کو ختم کر کے جماعت میں شامل ہو جانا چاہیے، اپنی جاری کر دہ نماز کو مختصر کر کے جلدی جلدی مکمل کرنے کی شرعاً اجازت نہیں۔ (واللہ اعلم)
[1] مسلم، صلاة المسافرین:۷۱۰۔
[2] مسند امام احمد ، ص ۳۵۲،ج۲۔
[3] شرح نووی ، ص ۳۱۵،ج۵۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب