السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز کے بعد اذکارِ مسنونہ کرنے کے لیے تسبیح کا استعمال شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے ، ہمارے ہاں کچھ حضرات اسے بدعت کہتے ہیں، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز کے بعد جو اذکار کیے جا تے ہیں، ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں کہ تسبیح کو استعمال کرنے کی ضرورت پڑے، زیادہ سے زیادہ سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کو تینتیس (۳۳) مرتبہ پڑھنے کی ضرورت ہو تی ہے، ہاتھ کی گِرہوں پر آسانی سے اس عمل کو کیا جا سکتا ہے تاہم اگر کسی کی یاداشت کمزور ہے تو تسبیح استعمال کرنے میں چنداں حرج بھی نہیں۔
بہر حال جواز کی حد تک اس کے استعمال کو گوارا کیا جا سکتا ہے لیکن اسے بدعت کہنا سینہ زوری ہے۔ افضل یہ ہے کہ اس قسم کے اذکار مسنونہ کو انگلیوں اور ان کے پو روں پر کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
’’انگلیوں کے پو روں کے ساتھ گِرہ لگاؤ کیونکہ قیامت کے دن ان سے سوال کیا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا۔‘‘[1]
ہاتھ میں تسبیح پکڑنے کی صورت میں ریا کاری کا بھی اندیشہ ہے، اس کے علاوہ تسبیح کے ساتھ ذکر کرنے والا اکثر و بیشتر حضور قلب سے کام نہیں لیتا جو ذکر کی روح ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف وہ تسبیح پھیر رہا ہو تاہے اور دوسری طرف دائیں بائیں دیکھ رہا ہو تا ہے۔ ہم نے ایسے لو گ بھی د یکھے ہیں جو ہاتھ سے تسبیح کر تے وقت زبان سے باتوں میں مصروف رہتے ہیں۔
لہٰذا ہمارے نزدیک افضل اور بہتر ہے کہ تسبیح کے بجائے انگلیوں اور ان کے پو روں پر ذکر کیا جائے ۔ چونکہ تسبیح کا استعمال سہولت کے پیش نظر ہوتا ہے، اس کا تعلق قطعی طور پر عبادت سے نہیں لہٰذا اسے بدعت کہنے سے اجتناب کیا جائے۔ (واللہ اعلم)
[1] مسند امام احمد، ص ۳۷۱،ج۶۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب