سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(102) عورت کا فرض نماز پڑھانا

  • 20363
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 813

سوال

(102) عورت کا فرض نماز پڑھانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا عورت گھر میں فرض نماز پڑھا سکتی ہے ؟ اس سلسلہ میں کوئی صریح نص ہو تو اس کا حوالہ دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت کو اذان یا اقامت کہنے کی اجازت نہیں تاہم وہ جماعت کرا سکتی ہے اور جماعت کراتے وقت وہ عورتوں کے درمیان میں کھڑی ہو گی اور صرف عورتوں کی جماعت کرائے گی ، مرد حضرات اس میں شامل نہیں ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جا تے تھے اور آپ نے ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کرائے۔[1]

ایک روایت میں وضاحت ہے کہ وہ اپنے گھر کی خواتین کو نماز با جماعت پڑھاتی تھیں، مرد حضرات اس میں شامل نہیں ہو تے تھے۔[2]

ایک دوسری روایت میں فرض نماز پڑھانے کی صراحت ہے ، چنانچہ الفاظ یہ ہیں :’’آپ نے انہیں اجازت دی تھی کہ ان کے لیے اذان دی جائے اور وہ اپنے اہل خانہ کی فرض نماز میں امامت کرائیں کیونکہ وہ قرآن کی حافظہ تھیں۔ ‘‘[3]

ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق بھی احادیث میں ہے کہ وہ عورتوں کی امامت کراتی تھیں، چنانچہ حضر ت ریطہ حنفیہ بیان کر تی ہیں کہ ہمیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرض نماز کی امامت کرائی اور ہمارے درمیان صف میں کھڑی ہوئی تھیں۔[4]

اسی طرح حضرت حجیرہ بنت حصین رضی اللہ عنہا بیان کر تی ہیں کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نےہمیں عصر کی نماز پڑھائی تو وہ ہمارے درمیان کھڑی ہوئیں۔[5]

امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے :’’عورت، خواتین کی فرض نماز میں امامت کرا سکتی ہے۔ ‘‘[6]

ان احادیث و آثار کے پیش نظر عورت فرض نماز کی جماعت کرا سکتی ہے لیکن اُسے مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا ہو گا۔

1۔ وہ صرف خواتین کی جماعت کرائے، مرد حضرات اس میں شامل نہ ہوں۔

2۔ وہ دیگر خواتین کے ساتھ صف کے درمیان میں کھڑی ہو ، ان کے آگے کھڑی نہ ہو۔

3۔ وہ فرض اور نوافل دونوں قسم کی امامت کرا سکتی ہے ، فرض نماز پڑھانے کی صراحت درج بالا احادیث میں موجود ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] ابو داؤد، الصلوٰة: ۵۹۶۔

[2] التعلیق المغنی علی الدار قطنی:ص۴۰۴،ج۱۔

[3] صحیح ابن خزیمه، حدیث نمبر۲:۱۶۷۶،ج۳۔

[4] دار قطنی،ص۴۰۴،ج۱۔

[5] بیہقی،ص۱۳۰،ج۳۔

[6] ابن خزیمه،الصلوٰة، باب نمبر ۱۶۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:127

محدث فتویٰ

تبصرے