السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہماری مسجد میں جو مؤذن تعینات ہے وہ ہمیشہ بے وضو اذان دیتا ہے حالانکہ مسجد میں پانی کی سہولت موجود ہے لیکن وہ اذان کے بعد وضو کرتا ہے، کیا وضو کے بغیر اذان کہی جا سکتی ہے ؟ قرآن و حدیث کی رشنی میں جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلا شبہ اذان اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ وہ اللہ کا ذکر طہارت کی حالت میں کر تے تھے جیسا کہ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا تو آپ نے جب تک وضو نہ کر لیا سلام کا جواب نہ دیا پھر آپ نے میرے سامنے یہ عذر پیش کیا :’’ مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ میں اللہ کا ذکر طہارت کے بغیر کروں۔‘‘ [1]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب وضو کرنے کے بعد دیا، اس لیے بہتر ہے کہ اذان بھی با وضو ہو کر دی جائے۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وضو کے بغیر اذان دینا صحیح نہیں اور جو شخص وضو کے بغیر اذان دے گا ، اس کی اذان قبول نہیں ہو گی۔ اگرچہ اس سلسلہ میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :’’اذان صرف باوضو شخص ہی دے ۔ ‘‘[2]
لیکن یہ روایت محدثین کے قائم کر دہ معیار صحت پر پوری نہیں اتر تی کیونکہ اس میں معاویہ بن یحییٰ الصدفی نامی راوی ضعیف ہے ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے متصل سند کے ساتھ اس روایت کو موقوف بیان کیا ہے یعنی یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے ۔ [3]
لیکن یہ موقوف روایت بھی منقطع ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :’’یہ روایت مرفوع اور موقوف کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں۔ ‘‘[4]
اس سلسلہ میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ بے وضو اذان دینے کی عادت بنانا کسی طور پر درست نہیں جیسا کہ صورت مسؤلہ میں ہے ۔ لیکن اگر کبھی کبھار کسی مجبوری کے پیش نظر بے وضو اذان کہہ دی جائے تو اذان صحیح ہے اور ایسی حالت میں مؤذن کسی حرام امر کا مرتکب نہیں ہو تا۔ کیونکہ اذان کو وضو سے مشروط کرنے کی کوئی دلیل قرآن و حدیث میں موجود نہیں، اگرچہ افضل یہی ہے کہ انسان باوضو ہو کر اذان دے۔ (واللہ اعلم)
[1] ابو داؤد، الطہارة:۱۷۔
[2] بیہقی،ص۳۹۷،ج۱۔
[3] ترمذی، الطہارة: ۲۰۱۔
[4] اروا ء الغلیل ، ص ۲۴۰،ج۱۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب