سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(99) بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا

  • 20360
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-09
  • مشاہدات : 1202

سوال

(99) بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا کسی بدعتی کو امام بنایا جا سکتا ہے ، ایسا امام جو اہل سنت کے خلاف عقیدہ رکھتا ہو اس کے پیچھے نماز پڑھنے کی کیا حیثیت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام بخاری نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :’’فتنہ گر اور بدعتی کی امامت۔‘‘ [1]

پھر آپ نے امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک فتویٰ نقل کیا ہے کہ تم بدعتی کے پیچھے نماز پڑھو، اس کی بدعت کا وبال خود اسی پر ہو گا۔ [2]

در اصل بدعت کی دو اقسام ہیں : ایک بدعت یہ ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے سے انسان دائرہ اسلام سے ہی خارج ہو جا تا ہے ، اسے بدعت مکفرہ کہا جا تا ہے۔ اس قسم کی بدعت کا ارتکاب حرا م اور ایسے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں۔ دوسری بدعت یہ ہے کہ اس کے ارتکاب سے انسان دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہو تا البتہ فاسق و فاجر ضرور قرار پاتا ہے۔ایسے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھی جا سکتی ہے لیکن اس قسم کے بدعتی کو بھی مستقل امام بنانا صحیح نہیں۔

نوٹ: عرصہ ہوا، اس سلسلہ میں ہمارے دیرینہ دوست اور مہر بان حضرت پروفیسر علامہ محمد حسین آزاد نے عرب کے مستند اورمعروف علما ء کبار کا ایک فتویٰ ار سال کیا تھا تاکہ اسے ’’ اہل حدیث‘‘ میں شائع کیا جائے۔ سوال کی مناسبت سے ہم اس کا ترجمہ قارئین کی نذر کر تے ہیں:’’ جس شخص کے متعلق ہمارا فیصلہ ہے کہ وہ مسلمان ہے ، اس کے پیچھے نماز پڑھنا بھی صحیح ہے اور جو مسلمان نہیں، اس کی اقتدا میں نماز ادا کرنا بھی جائز نہیں۔ اس بات کو اکثر اہل علم نے اختیار کیاہے اور جن حضرات نے کہا ہے کہ کسی بھی نافرمان اور گنہگار کی اقتدا میں نماز صحیح نہیں ان کا موقف مرجوح ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امرا وقت کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے اور امرا وقت کی اکثریت نا فرمان ہی ہو تی ہے اس کے علاوہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف کے پیچھے نماز پڑھتے تھے حالانکہ وہ بہت بڑا ظالم تھا، اس بنا پر بدعتی اور فاسق کے پیچھے نماز پڑھی جا سکتی ہے بشرطیکہ اس کی بدعت اور اس کا فسق اسے دائرہ اسلام سے خارج نہ کر دے۔‘‘ (واللہ اعلم)


[1] بخاری، الاذان، باب نمبر ۵۵۔

[2] صحیح بخاری ، حوالہ مذکور۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:125

محدث فتویٰ

تبصرے