سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(91) اذان دیتے وقت کانوں میں انگلیاں دینا

  • 20352
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2586

سوال

(91) اذان دیتے وقت کانوں میں انگلیاں دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا اذان دیتے وقت کانوں میں انگلیاں ڈالنا ضروری ہیں، اس کے متعلق احادیث میں کوئی صراحت ہو تو اس کا حوالہ دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اذان دیتے وقت کانوں میں انگلیاں ڈالنا مستحب ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:’’اذان دیتے وقت اپنے کانوں میں انگلیاں داخل کرنا‘‘

پھر انھوں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کا حوالہ دیا ہے کہ انھوں نے اذان دیتے وقت اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں داخل کیا تھا۔[1]

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اذان دیتے وقت اپنی انگلیوں کو کانوں میں داخل کرے کیونکہ ایسا کرنا آواز کے اونچا ہونے کا باعث ہے۔ [2]

اگرچہ اس حدیث کی سند کمزور ہے تاہم دیگر روایات سے اس عمل کی تائید ہو تی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا ہے کہ وہ اذان دیتے وقت اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالتے تھے۔[3]

اگر کوئی مؤذن اذان دیتے وقت انگلیاں کانوں میں نہیں ڈالتا اور وہ صرف اپنے ہاتھ کانوں پر رکھتا ہے تو اس صورت میں بھی اذان دینا جائز ہے جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ اذان دیتے وقت اپنی انگلیاں کانوں میں نہیں ڈالتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مذکورہ وصف مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ میں متصل سند سے بیان ہوا ہے۔[4]

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اہل علم اس امر کو مستحب خیال کرتے ہیں کہ اذان دیتے وقت اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالی جائیں۔[5]

بہر حال مستحب ہے کہ موذن اذان دیتے وقت اپنی شہادت کی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں رکھے۔ (واللہ اعلم )


[1] ترمذی، الصلوٰة، ۱۹۷۔

[2] ابن ماجه، الاذان:۷۱۰۔

[3] بخاری،الاذان: قبل حدیث۶۳۴۔

[4] فتح الباری،ص۱۵۰،ج۲۔

[5] ترمذی، الصلوٰة، باب نمبر ۳۰۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:119

محدث فتویٰ

تبصرے