سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(90) وتر کی ایک رکعت پڑھنا

  • 20351
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1094

سوال

(90) وتر کی ایک رکعت پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں عام طور پر نماز عشا کے بعد وتر کی ایک رکعت پڑھی جا تی ہے، کیا کتاب و سنت سے ایک وتر پڑھنے کا ثبوت ہے ، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے یہ عمل ثابت ہے ؟ وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وتر پڑھنے کی متعدد صورتیں کتب حدیث میں منقول ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وتر ایک رکعت پڑھی جا سکتی ہے، اس لیے جواز کی حد تک روزانہ ایک وتر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک وتر کا جواز بایں الفاظ ثابت ہے، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو شخص ایک وتر پڑھنا چاہے وہ ایک وتر پڑھ سکتا ہے۔ ‘‘[1]

ہمارے ہاں ایک وتر پڑھنے کو اچھا خیال نہیں کیا جا تا حالانکہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ایک رکعت وتر پڑھنا ثابت ہے۔ چنانچہ ابن ملیکہ بیان کر تے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک وتر پڑھا، اس کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’ان کے متعلق الجھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں۔‘‘[2]

ان کا مقصدیہ تھا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا عمل بلا دلیل نہیں ۔ چنانچہ ایک دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:’’وہ فقیہ ہیں۔‘‘[3]

یہ واقعہ عطا بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ بھی بیان کر تے ہیں ، ان کی روایت کے الفاظ یہ ہیں :’’انھوں نے سنت پر عمل کیا ہے۔ ‘‘[4]

حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ جناب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو ایک وتر پڑھتے دیکھا تھا۔[5]

ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ وہ نماز عشا کے بعد وتر کی ایک رکعت پڑھتے تھے۔[6]

ان احادیث و آثار کی روشنی میں عشا ءکے بعد وتر کی ایک رکعت پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، اگرچہ کامل اتباع کا تقاضا ہے کہ وتر کی منقول ان تمام روایات پر عمل کیا جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وقتاً فوقتاً ثابت ہیں۔ (واللہ اعلم)


[1] ابو داؤد، وتر:۱۴۲۲۔

[2] بخاری، الفضائل: ۳۷۶۴۔

[3] بخاری الفضائل: ۳۷۶۵۔

[4] مصنف ابن ابی شیبه، ص ۲۲۹،ج۳۔ 

[5] بخاری، الدعوات:۶۳۵۶۔

[6] مسند امام احمد، ص ۴۳۲،ج۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:118

محدث فتویٰ

تبصرے