سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(89) تین وتر پڑھنے کا طریقہ

  • 20350
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 896

سوال

(89) تین وتر پڑھنے کا طریقہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 تین وتر پڑھنے کا کیا طریقہ ہے ؟ قرآن و حدیث میں اس کی ادائیگی کس طرح منقول ہے ، تفصیل سے وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تین وتر پڑھنے کے عام طور پر تین طریقے حسب ذیل ہیں:

1  دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے پھر تیسری رکعت الگ سلام سے ادا کی جائے، اسے طریقہ ’’فصل‘‘ کہتے ہیں۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ افضل اور بہتر ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیتے تھے، اس کے بعد وتر (ایک رکعت) پڑھتے۔[1]

ایک مر فوع روایت میں بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت الگ پڑھتے اور ایک رکعت جدا ادا کر تے اور کبھی کبھی سلام کی آواز سنا بھی دیتے تھے۔ [2]

امام ابن حبان نے ایک باب بایں الفاظ قائم کیا ہے : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے اور ایک الگ پڑھتے۔ ‘‘

2۔ تین وتر ایک ہی سلام سے پڑھ لیے جائیں، یہ بھی جائز ہے، اس میں چنداں قباحت نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر پڑھتے اور آخری رکعت کے علاوہ تشہد نہیں بیٹھتے تھے۔[3]

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث سے بھی یہ استنباط کیا گیا ہے جس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعت پڑھتے، پہلے چار خوبصورت اور طویل ہوتیں، اسی طرح پھر چار رکعت پڑھتے، آخر میں تین رکعت پڑھتے تھے۔ [4]

3۔تین اس طرح ادا ہوں کہ دو رکعت پڑھ کر سلام کے بغیر تشہد پڑھیں پھر اٹھ کر ایک رکعت پڑھیں اور دوسرےتشھد میں سلام پھیر دیں، لیکن یہ طریقہ کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔ اگرچہ بعض اہل علم اور عوام الناس اس طرح تین وتر پڑھتے ہیں، بلکہ اس طرح پڑھنے سے ایک گو نہ ممانعت ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تین وتر پڑھتے وقت مغرب کی نماز سے مشابہت نہیں ہونا چاہیے۔[5]

مغرب سے مشابہت نہ ہونےکی دو صورتیں ہیں۔ 1اسے دو سلام کے ساتھ پڑھا جائے ۔ 2ایک ہی تشہد کے ساتھ ادا کیے جائیں۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری، الوتر: ۹۹۱۔

[2] مسند امام احمد، ص ۷۶۔

[3] سنن بیہقی، ص ۳۱، ج۳۔

[4] بخاری، التہجد: ۱۱۴۷۔

[5] مستدرك حاکم،ص ۳۰۴،ج۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:117

محدث فتویٰ

تبصرے