سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(576) بہن کا حصہ وراثت میں.!

  • 2034
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1300

سوال

(576) بہن کا حصہ وراثت میں.!

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین حق ؟ کہ دو بھائی اور ایک بہن کی کچھ زمین تھی جو وراثت میں ان کے حصہ میں آتی تھی۔ تو بہن نے آج سے تیس سال پہلے اپنا حصہ دونوں بھائیوں کے نام لگوا دیا تھا۔ اپنی رضامندی سے۔ اب ان دو بھائیوں میں سے ایک بھائی فوت ہو گیا ہے تو اس فوت شدہ بھائی کی اولاد ہے اب مذکورہ بہن اپنا حصہ جو دونوں بھائیوں کے نام  لگوایا تھا۔ وہ واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہے یہ مطالبہ اس بہن نے فوت شدہ بھائی سے اس کی موت سے قبل بیماری کے دنوں میں بھی کیا تھا۔ اور اس کے بعد اس کی اولاد سے اور دوسرے بھائی سے جو ابھی زندہ ہے۔ ان سے مطالبہ کر رہی ہے کیا بھائی اور دوسرے فوت شدہ بھائی کی اولاد پر ضروری ہے کہ وہ جو بہن نے آج سے تیس سال پہلے دونوں بھائیوں کے نام اپنا حصہ ان کے نام لگوایا تھا۔ وہ حصہ اپنی بہن کو واپس کریں۔ اور اگر وہ واپس نہ کریں تو کیا وہ گناہ گار ہیں ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

آپ نے تحریر فرمایا ہے: ’’بہن نے آج سے تیس سال پہلے اپنا حصہ دونوں بھائیوں کے نام لگوا دیا تھا ۔ اپنی رضامندی سے‘‘ آپ کا کلام ختم ہوا۔

اس کے بعد آپ خود ہی تحریر فرماتے ہیں ’’اب مذکورہ بہن اپنا حصہ جو دونوں بھائیوں کے نام لگوا دیا تھا وہ واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہے ‘‘ آپ کا کلام ختم ہوا۔

بہن کے اب اپنا حصہ واپس لینے کا مطالبہ کرنے سے واضح ہو رہا ہے کہ آج سے تیس سال قبل بہن نے اپنا حصہ برضا ورغبت بھائیوں کے نام نہیں لگوایا تھا صرف معاشرہ کے دبائو کے تحت وہ خاموش ہو گئی تھیں بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں نے اسے اس کی رضا مندی سمجھ لیا ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پہلے تو وہ اپنی رضامندی سے بھائیوں کے نام لگوائے اور اب تیس سال بعد واپس لینے کا مطالبہ شروع کر دے ؟ ان حالات میں زندہ بھائی اور فوت شدہ بھائی کی اولاد پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بہن کا حصہ واپس کریں ورنہ وہ فرض کے تارک اور گناہ گار ہوں گے اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء میں میراث کے مسائل بیان کرنے کے بعد فرمایا :

﴿وَمَن يَعۡصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُۥ يُدۡخِلۡهُ نَارًا خَٰلِدٗا فِيهَا وَلَهُۥ عَذَابٞ مُّهِينٞ﴾--النساء14

’’جو کوئی نافرمانی کرے اللہ کی اور اس کے رسول کی اور نکل جاوے اس کی حدوں سے ڈالے گا اس کو آگ میں ہمیشہ رہے گا اس میں اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہے‘‘

ہاں اگر بہن نے واقعی اپنی رضا ورغبت کے ساتھ بلا کسی جبر واکراہ اور بغیر کسی معاشرتی دبائو کے اپنا حصہ اپنے بھائیوں کو ہبہ کر دیا تھا اور ان کے نام بھی لگوایا تھا تو پھر وہ بہن اپنا حصہ نہ واپس لے سکتی ہے اور نہ ہی واپس لینے کا مطالبہ کر سکتی ہے بلکہ اگر بھائی اور بھتیجے اس کا حصہ اس کو واپس دیں تو بھی وہ نہیں لے سکتی کیونکہ وہ اپنا حصہ برضا ورغبت اپنے بھائیوں کو دے چکی ہے انہیں ہبہ کر چکی ہے ان کے نام لگوا چکی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

«لَیْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْء الَّذِیْ یَعُوْدُ فِیْ ہِبَتِہِ کَالْکَلْبِ یَرْجِعُ فِیْ قَیْئِہِ»(صحيح بخارى ج1 ص357)

’’ہم کو یہ بری مثال اپنے اوپر لانا پسند نہیں جو شخص ہبہ کر کے پھیر لے وہ کتے کی طرح ہے جو قے کر کے پھر اس کو چاٹے جاتا ہے‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

وراثت کے مسائل ج1ص 398

محدث فتویٰ

تبصرے