السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر انسان فرض نماز با جماعت ادا کر رہا ہو تو کیا آیت رحمت سنتے وقت اللہ تعالیٰ سے رحمت کا سوال کرنا چاہیے ، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا ہدایت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر انسان نماز پڑھ رہا ہو تو دوران قرأت آیت رحمت پر ٹھہرنا اور رحمت کا سوال کرنا مشروع ہے جیسا کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ قیام اللیل کیا، آپ بہت آہستہ آہستہ قرأت کر تے تھے جب آپ کسی ایسی آیت سے گزرتے جہاں اللہ کی تسبیح ہوتی تو آ پ وہاں ٹھہر تے اور سبحان اللہ کہتے، جب آپ کسی سوال پر مشتمل آیت سے گزرتے تو وہاں ٹھہر کر اللہ تعالیٰ سے سوال کر تے ، اسی طرح جب آیت پناہ سے گزرتے تو اللہ سے پناہ مانگتے۔ [1]
بعض روایات میں ہے کہ جب آپ ایسی آیت پڑھتے جس میں اللہ کی رحمت کا ذکر ہوتا تو آپ وہاں ٹھہر کر رحمت کا سوال کرتے اور جب آیت عذاب سے گزرتے تو وہاں ذرا ٹھہر کر اس سے پناہ مانگتے ۔ [2]
اس حدیث سے بعض حضرات کا استدلال ہے کہ فرض نماز میں مقتدی بھی امام کی قرأت کے وقت آیت رحمت سنتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سوال کرے ، لیکن اولاً یہ حدیث صلوٰۃ اللیل سے متعلق ہے فرض نماز کے متعلق نہیں۔
نوافل پڑھتے وقت بعض ایسے کام جائز ہو تے ہیں جو فرائض کی ادائیگی کے وقت نہیں کیے جا سکتے ،مثلاًاستقبال قبلہ نوافل ادا کر تے وقت ضروری نہیں جبکہ انسان سفر کر رہا ہو لیکن فرائض کی ادائیگی میں استقبال قبلہ ضروری ہے ، نیز یہ حدیث خود قرآن کی قرأت کر نے والے سے متعلق ہے، سننے والے کے لیے نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ بیان کر تے ہیں اور خود ان کا عمل کرنا احادیث میں نہیں۔
چنانچہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’اگر فرائض میں اس طرح مشروع ہو تا تو آپ فرائض میں بھی ایسا ضرور کر تے، اگر آپ نے فرائض میں ایسا کیا ہو تا تو احادیث میں ضرور منقول ہو تا، جب منقول نہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرائض میں ایسا نہیں کیا۔[3]
بہر حال ہمارے رجحان کے مطابق نوافل ادا کر تے ہوئے آیت رحمت پڑھتے وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سوال کیا جا سکتا ہے ، فرائض میں ایسا کرنے کی گنجائش نہیں۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح مسلم، صلوٰة المسافرین:۷۷۲۔
[2] مسند امام احمد، ص۳۸۲،ج۵۔
[3] تمام المنه، ص ۱۸۵۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب