سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67) نماز اشراق

  • 20328
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1578

سوال

(67) نماز اشراق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 نماز چاشت اور نماز اشراق میں کیا فرق ہے ، اس کا وقت اور رکعات کی تعداد بھی بتائیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب درکار ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز چاشت اور نماز اشراق یہ دونوں نام ایک ہی نماز کے ہیں جو طلوعِ آفتاب کے بعد ادا کی جا تی ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی تھی:

1۔  ہر ماہ میں تین دن (ایام بیض یعنی تیرہ ، چودہ اور پندرہ) کے روزے رکھنا2چاشت کی دو رکعت پڑھنا۔ 3سونے سے پہلے وتر پڑھ لینا۔ [1] اسی طرح ایک حدیث قدسی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب فرماتا ہے کہ اے ابن آدم! تو دن کی ابتدا میں چار رکعت ادا کر، میں تجھے سارے دن کے لیے کافی ہو جاؤں گا۔[2] ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’انسان کے تین سو ساٹھ جوڑ ہیں اور ہر جوڑ پر صدقہ ہے ، ان تمام صدقات سے نما ز چاشت کی دو رکعات کفایت کر جاتی ہیں۔ [3]

یہ تمام احادیث نماز چاشت کی مشروعیت اور اس کی فضیلت کی نشاندہی کر تی ہیں، اگرچہ کچھ اسلاف نے اسے بدعت قرار دیا ہے وہ شاید کسی خاص کیفیت کو انھوں نے بدعت کہا ہو گا بصورت دیگر یہ نماز استحباب کا درجہ رکھتی ہے اس کا وقت طلوع آفتاب کے بعد سے لے کر زوال آفتاب تک ہے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ نماز چاشت اس وقت ہے جب شدت گرمی کی وجہ سے اونٹ کے پاؤں جلنے لگیں۔[4]اس کی کم از کم دو رکعات ہیں اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعات پڑھنا ثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز چاشت کی آٹھ رکعات ادا کیں۔ [5]

ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے نماز چاشت کی بارہ رکعات ادا کیں، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں ایک محل بنا دیا جائے گا۔ [6]لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [7] لہٰذا نماز چاشت کی رکعات دو سے آٹھ تک ہیں، اسی مقدار پر اکتفا کیا جائے۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح البخاری، الصوم:۱۹۸۱۔

[2]  مسند امام احمد،ص۲۸۶،ج۵۔

[3] صحیح مسلم، صلوٰة المسافرین:۱۰۰۷۔

[4]  صحیح مسلم، صلوٰة المسافرین:۷۴۷۔

[5]  صحیح بخاری، الصلوٰة:۳۵۷۔

[6] ترمذی، الصلوٰة: ۴۷۳۔

[7]  فتح الباری، ص۲۰،ج۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:100

محدث فتویٰ

تبصرے