سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(66) دورانِ نماز سلام کا اشارہ سے جواب دینا

  • 20327
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 7466

سوال

(66) دورانِ نماز سلام کا اشارہ سے جواب دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں دوران نماز تکبیر تحریمہ کے بعد سلام پھیرنے تک آنے والے نمازیوں کی طرف سے سلام کہنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، ایسی صورت حال کے پیش نظر نمازی کیا طریقہ اختیار کرے، کیا وہ پوری نماز میں مسلسل اشارے سے سلام کا جواب دینے میں لگا رہے ، کیا اس سے نمازی کا خشوع متاثر نہیں ہوتا، کتاب و سنت کی روشنی میں اس مسئلہ کے متعلق ہماری راہنمائی فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی انسان نماز پڑھ رہا ہو تو اسے سلام کہا جا سکتا ہے یا نہیں اور وہ جواب دے سکتا ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق فقہا و محدثین میں خاصا اختلاف ہے ، در اصل جب دوران نماز بات چیت کرنے کی اجازت تھی تو سلام بھی کیا جا تا تھا اور اس کا جواب بھی زبان سے دیا جا تا تھا لیکن جب بات چیت کرنے کی ممانعت ہو گئی تو نمازی پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ نماز میں کسی دوسرے آدمی سے ہم کلام نہ ہو اور نہ ہی وہ کسی کو سلام کا جواب دے ، اس کے لیے نماز کی مصروفیت ہی کافی ہے، اس لیے وہ پوری توجہ سے ادعیہ و اذکار میں مصروف رہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ہم نماز میں ایک دوسرے کو سلام کر لیا کر تے تھے پھر ہمیں کہا گیا کہ نماز میں مصروفیت ہو تی ہے۔ ‘‘[1]

لیکن کچھ احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ نمازی خود تو کسی کو سلام نہیں کر سکتا تاہم اسے سلام کیا جا سکتا ہے اور وہ اس سلام کا جواب زبان سے تو نہیں بلکہ اشارے سے دے سکتا ہے ، چنانچہ صہیب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اشارہ سے جواب دیا، راوی کا بیان ہے کہ آپ نے اپنی انگلی کا اشارہ کیا۔ [2]امام ابو داؤد نے اس حدیث پر یوں عنوان قائم کیا ہے :’’نماز کے دوران میں سلام کا جواب دینا۔‘‘ [3] اس حدیث پر امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس قسم کے عنوانات قائم کیے ہیں ، جیسا کہ ذیل میں وضاحت ہے:

’’دوران نماز میں اشارہ کرنا ‘‘ (ترمذی ، الصلوٰۃ باب نمبر ۱۵۴) ’’دورانِ نماز میں اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب دینا۔‘‘ [4]

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ اس سلسلہ میں اپنا ایک اور مشاہدہ بیان کرتے ہیں :چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قبا میں نماز ادا کر نے کے لیے تشریف لائے، متعدد انصاری حضرات حاضر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام عرض کرنے لگے، میں نے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے سے پوچھا، آپ اس موقع پر سلام کا جواب کس طرح دیتے تھے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے۔ [5]

امام ابن ماجہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے :’’نمازی سلام کا جواب کس طرح دے۔‘‘ [6]

محدث ابن خزیمہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس حدیث کو بیان کیا ہے اور اس پر یوں عنوان قائم کیا ہے: ’’نمازی کو اگر دوران نماز سلام کیا جائے تو اسے اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب دینے کی اجازت ہے۔ ‘‘[7]

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہی سوال حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے بھی کیا تھا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح جواب دیتے ہوئے دیکھا جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ (انصار) آپ کو سلام کہتے تھے ، انھوں نے کہا اس طرح اور اپنی ہتھیلی پھیلائی۔[8]

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ دونوں سے اس قسم کا سوال کیا اور دونوں واقعات صحیح ہیں۔[9]

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس اشارے کو جوابی سلام ہی سمجھا، اسے کسی دوسرے رد عمل پر محمول کرنا بعید از قیاس ہے۔ چنانچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے متعلق ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ ایک آدمی کے پاس سے گذرے جو نماز پڑھ رہا تھا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے سلام کہا تو اس نے سلام کا جواب زبان سے کہا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف لوٹ کر آئے اور اسے فرمایا:’’جب دوران نماز کسی کو سلام کہا جائے تو اس کا جواب زبان سے نہ دے بلکہ اپنے ہاتھ سے اشارہ کر دے ۔[10]

’’دوران نماز سلام کا جواب نہ دیا جائے۔ ‘‘[11]

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے مراد عام متعارف الفاظ میں جواب نہ دیا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ کسی دوسرے آدمی سے مخاطب ہو جا تا ہے جو نماز میں منع ہے۔[12] پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت دو احادیث ذکر کی ہیں، ایک حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث جبکہ وہ حبشہ سے واپس آئے تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا اور آپ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے اس کا جواب نہ دیا اور فرمایا کہ نماز میں مصروفیت ہوتی ہے۔ [13]

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان سے نہیں بلکہ اشارہ سے اس کا جواب دیا۔[14]

چنانچہ آپ نے آئندہ ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے : ’’نما ز میں اشارہ کرنا ‘‘[15]

اس مقام پر متعدد احادیث پیش کی ہیں جن سے ثابت ہو تا ہے کہ دوران نماز کسی وجہ سے اشارہ کیا جا سکتا ہے جب دیگر اغراض کے پیش نظر اشارہ کیا جا سکتا ہے تو جوابی سلام کے لیے بھی اشارہ ہو سکتا ہے اور ایسا کرنا نماز کی مصروفیت کے منافی نہیں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نماز میں مصروفیت والی حدیث ابن مسعود میں یہ اضافہ بھی نقل کیا ہے:’’سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ آپ ایسے موقع پر کیا کر تے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ میں دل میں جواب دیتا ہوں۔ ‘‘[16]

جب دل میں جواب دینا نماز کی مصروفیت نہیں تو اشارہ سے جواب دینا کیوں منافی ہو سکتا ہے بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان قطعاً یہ نہیں کہ دوران نماز سرے سے سلام کا جواب نہ دیا جائے بلکہ زبان سے جواب دینے پر پابندی ہے جیسا کہ حافظ ابنحجر رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت سے لکھا ہے: یہ ضروری نہیں کہ سلام کا جواب دوران نماز اشارہ سے ہی دیا جائے ۔ کیونکہ یہ تو ایک رخصت ہے اگر کوئی اس فرض کی ادائیگی کو سلام پھیرنے تک مؤخر کر دے تو بھی جائز ہے ، سلام پھیرنے کے بعد وہ زبان سے اس کا جواب دے دے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو سلام پھیرنے کے بعد جواب دیا تھا اور فرمایا تھا کہ میں دوران نماز بھی جواب دے سکتا تھا لیکن نماز کی ادائیگی (زبان سے جواب دینا) اس کے منافی تھی۔ [17]

علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور اہل علم کا یہی موقف بیان کیا ہے کہ دوران نماز اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب دیا جا سکتا ہے۔[18]

آخر میں ہم سلام کہنے والوں کو بھی یہ نصیحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ وہ کڑک کر سلام کہنے کی بجائے نہایت شائستگی کے ساتھ آہستہ آواز میں سلام کہیں تاکہ دیگر نمازیوں کے لیے تشویش کاباعث نہ ہو۔ چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے اس قسم کا سوال ہوا تو آپ نے درج ذیل جواب دیا:

’’اگر کوئی نمازی اشارے سے سلام کا جواب اچھے طریقے سے دے سکتا ہے تو اسے سلام کہنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتے تھے اور آپ اشارہ سے اس کا جواب بھی دیتے تھے لیکن اگر وہ اچھے طریقے سے جواب نہیں دے سکتا بلکہ خدشہ ہے کہ وہ بول پڑے گا تو اسے اس حال سے دو چار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے یا تو اس کی نماز ٹوٹ جاے گی یا اسے سلام کا جواب دینے کا فریضہ ترک کرنا پڑے گا۔[19]

اس اندیشہ کے پیشِ نظر حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر میں لو گوں کے پاس جاؤں جو نماز پڑھ رہے ہوں تو میں انہیں سلام نہیں کہوں گا۔ [20]

امام ابو یعلیٰ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قول سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ [21]

بہر حال زیر بحث مسئلہ میں افراط و تفریط سے اجتناب کرنا چاہیے، اگر کوئی شخص کسی نمازی کو سلام کہنا چاہتا ہے تو آہستگی کے ساتھ سلام کہہ دے تاکہ اس کا خشوع متاثر نہ ہو اور دوران نماز اس کا جواب اشارہ سے دے یا اسے سلام پھیرنے تک مؤخر کر کے بعد از فراغت جواب سلام کہہ دے۔ اس مسئلہ کے متعلق علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔[22]


[1] ابو داؤد، الصلوٰة:۱۰۱۹۔

[2] ابو داؤد،الصلوٰة،۹۲۵۔

[3] ابو داؤد، الصلوٰة باب نمبر۱۷۱۔

[4] نسائی، السھو:باب نمبر ۶۔

[5] ابن ماجہ، اقامة الصلوٰت:۱۰۱۷۔

[6] ابن ماجه ، اقامة الصلوٰت، باب نمبر ۵۹۔

[7] ابن خزیمہ،ص۴۹،ج۲۔

[8] ابو داؤد، الصلوٰة:۹۲۷۔

[9] ترمذی، الصلوٰة:۳۶۸۔

[10] الموطا ، قصر الصلوٰة فی السفر، :۴۰۶۔

[11] صحیح بخاری، العمل فی الصلوٰة، باب نمبر ۱۵۔

[12] فتح الباری ، ص۱۱۳،ج۳۔

[13] صحیح بخاری ، حدیث نمبر:۱۲۱۶۔

[14]  فتح الباری، ص۹۵،ج۳۔

[15]  صحیح بخاری، السھو، باب :۹۔

[16]  بخاری، مناقب الانصار:۳۸۷۵۔

[17] صحیح بخاری، العمل فی الصلوة:۱۲۱۷۔

[18] نیل الاوطار،ص۳۶۳،ج۲۔

[19]  مجموع الفتاویٰ ،ص۶۲۵،ج۲۲۔

[20] بیہقی، ص۲۶۰،ج۲۔

[21]  مسند ابی یعلیٰ :۲۳۱۷۔

[22]  سلسلة الاحادیث الصحیحه،ص۳۶۰،ج۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:97

محدث فتویٰ

تبصرے