سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(574) اپنی زندگی میں وراثت تقسیم کرنا

  • 2032
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3707

سوال

(574) اپنی زندگی میں وراثت تقسیم کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں قرآن وسنت کی روشنی میں ۔

(1) کیا باپ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کو اپنی اولاد میں ﴿یُوْصِیْکُمُ اﷲُ﴾ کے مطابق تقسیم کر کے خود محروم ہو سکتا ہے؟

(2) اگر جائیداد تقسیم کر سکتا ہے اور باپ کی زندگی میں بیٹا فوت ہو جائے تو کیا اب جائیداد واپس باپ کو منتقل ہو گی یا میت کا بیٹا وصول کرے گا جبکہ پوتا دادے کے ہوتے ہوئے جائیداد کا وارث نہیں ہے۔

(3) کیا اولاد باپ کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ اپنی جائیداد بیچ کر رقم کو اولاد میں تقسیم کردے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

(1) ﴿یُوْصِیْکُمُ اﷲُ فِیْٓ اَوْلاَدِکُمْ﴾ والے رکوع میں ﴿مَا تَرَکَ﴾ اور ﴿مِمَّا تَرَکَ﴾ کے الفاظ موجود ہیں نیز ترکہ کی حقیقت میں موت کے بعد چھوڑے ہوئے مال کی قید موجود ہے پھر میراث اور وراثت کے الفاظ بھی زندگی کے ختم ہونے کے بعد پر دلالت کر رہے ہیں تو ان دلائل کی بنا پر انسان اپنے مال کو اپنی اولاد یا دیگر وارثوں میں ﴿یُوْصِیْکُمُ اﷲُ الخ﴾ کے مطابق تقسیم نہیں کر سکتا۔

ہاں صحیح بخاری میں مروی نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ والی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنی جائیداد کا کچھ حصہ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو بطور عطیہ یا ہبہ دے سکتا ہے  یاد رہے اس عطیہ اور ہبہ میں ﴿لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الاُنْثَیَیْنِ﴾ والا اصول پیش نظر نہیں رکھا جائے گا کیونکہ یہ موت کے بعد میراث وترکہ میں ہے بلکہ زندگی میں اولاد کو عطیہ یا ہبہ کرتے وقت لڑکے اور لڑکی کو برابر برابر دیا جائے گا۔

(2) زندگی میں جائیداد تقسیم کا حکم جواب نمبر۱ میں بیان ہو چکا ہے تو اب دیکھا جائے گا زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی گئی ہے اگر شریعت کے مطابق ہے تو فبہا اور اگر مطابق نہیں تو اب اس کو شریعت کے مطابق بنا  لیا جائے گا تو دونوں صورتوں میں جو فوت ہونے والے بیٹے کا حصہ بنے گا وہ اس بیٹے کے فوت ہونے کے بعد اس کے ترکہ میں شامل ہو گا اور ترکہ ﴿یُوْصِیْکُمُ اﷲُ﴾ کے مطابق تقسیم ہو گا اور اس سے اس بیٹے کی بیوی اور اولاد کو بھی حصہ ملے گا اور اس کے والدین کو بھی حصہ ملے گا۔

رہا ’’پوتے کا دادے کے ہوتے ہوئے وارث نہ ہونا ‘‘ تو وہ شریعت کا کوئی اصول نہیں البتہ ’’میت کے پوتے کا میت کے بیٹے (خواہ پوتے کا باپ ہو خواہ چچا یا تایا) کی موجودگی میں پوتا میت کا وارث نہیں ہوتا‘‘ شریعت کا اصول ہے ایسی صورت میں دادا اپنے پوتے کے لیے وصیت کرے قرآن مجید میں ہے

﴿كُتِبَ عَلَيۡكُمۡ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ ٱلۡمَوۡتُ إِن تَرَكَ خَيۡرًا ٱلۡوَصِيَّةُ لِلۡوَٰلِدَيۡنِ وَٱلۡأَقۡرَبِينَ﴾--بقرة180

’’فرض کر دیا گیا ہے تم پر جب حاضر ہو کسی کو تم میں موت بشرطیکہ چھوڑے کچھ مال وصیت کرنا ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے‘‘

(3) نہیں ۔ ہاں اگر باپ مناسب سمجھے تو شریعت کے اصول کے مطابق ایسا کر سکتا ہے اولاد باپ کو تقسیم پر مجبور نہیں کر سکتی ۔

یاد رہے  باپ کو بھی اولاد کے سلسلہ میں کتاب وسنت کی پابندی ضروری ہے اور اولاد کو بھی باپ کے سلسلہ میں کتاب وسنت کی پابندی ضروری ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

وراثت کے مسائل ج1ص 396

محدث فتویٰ

تبصرے