سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(17) غسل حیض کے لئے بالوں کو کھولنا

  • 20278
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1614

سوال

(17) غسل حیض کے لئے بالوں کو کھولنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مرد اور عورت کے غسل جنابت میں کوئی فرق ہے، نیز بتائیں کہ غسل حیض کے لئے بالوں کو کھولنا ضروری ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرد اور عورت کے غسل جنابت میں کوئی فرق نہیں ، پہلے زیریں جسم کو دھو لیا جائے اور اگر کوئی آلائش وغیرہ لگی ہو تو دور کر لی جائے، اس کے بعد نماز والا وضو کر لیا جائے پھر باقی جسم پر پانی بہا لیا جائے۔ خواتین کو اجازت ہے کہ وہ غسل جنابت میں اگر بال گندھے ہوئے ہیں تو انہیں نہ کھولیں، ویسے سر پر تین لپ پانی ڈال کر انہیں خوب اچھی طرح ہلا لیں تاکہ پانی جڑوں تک پہنچ جائے جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث میں ہے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے سر کے بال سخت کر کے باندھتی ہوں، کیا غسل جنابت کے وقت انہیں کھولنا ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تیرے لئے یہی کافی ہے کہ تو اپنے سر پر دونوں ہاتھ بھر کر تین بار پانی ڈال لے، اس کے بعد باقی جسم پر پانی بہا لے، اس طرح تو پاک ہو جائے گی۔ ‘‘[1]

لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک روایت کےالفاظ یہ ہیں کہ کیا میں غسل حیض اور غسل جنابت کے لئے اپنے گندھےہوئے بالوں کو کھولوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں کھولنے کی ضرورت نہیں۔ [2]

اگرچہ بعض اہل علم نے روایت میں حیض کےالفاظ کو شاذ قرار دیا ہے۔ [3]

لیکن انہیں شاذ قرار دینے کے بجائے یہ موقف زیادہ قرین قیاس ہے کہ عورت پر غسل حیض کے وقت بال کھولنے کی پابندی نرم کر دی جائے، البتہ احتیاط اور افضل یہ ہے کہ عورت غسل حیض کرتے وقت اپنے بال کھول لے تاکہ مختلف احادیث میں تطبیق پیدا ہو جائے اور اختلاف سے بچنا بھی ممکن ہو سکے، یہ بھی یاد رہے کہ اگر مرد یا عورت کے سر پر مہندی لگی ہو اور اس کی وجہ سے پانی جسم تک نہ پہنچ سکتا ہو تو اس کا ازالہ ضروری ہے ۔ (واللہ اعلم)


[1] سنن أبي داؤد، الطھارة : ۲۵۱۔

[2] صحیح مسلم، الحیض : ۳۳۰۔

[3] الاحادیث الصحیحۃ: ۱۸۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:55

محدث فتویٰ

تبصرے