السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری امی نے نذر مانی تھی کہ اگر میں ایف ۔ اے کے امتحان میں پاس ہو گئی تو وہ ہفتہ بھر پوری رات کا قیام کریں گی، اب میں نے امتحان تو پاس کر لیا ہے لیکن وہ اپنی نذر پوری کرنے سے عاجز ہیں، اس کے لئے کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
: اس میں شک نہیں کہ نذر ایک عبادت ہے اور اسے پورا کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہُ مُسْتَطِیْرًا ﴾
’’ وہ لوگ نذر کو پورا کرتےہیں اور اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس کی سختی عام ہو گی۔ ‘‘[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے اور جس نے اس کی نافرمانی اور معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔[2]
صورت مسؤلہ یں ہفتہ بھر پوری رات کے قیام کرنے کی نذر مانی گئی جو کہ معصیت ہے کیونکہ پوری رات کے قیام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ، ایسی نذر کو پورا نہیں کرنا چاہیے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ اگر کسی نےمکروہ عبادت کی نذر مانی مثلاً یہ کہ وہ ہمیشہ رات بھر قیام کرے گا اور ہمیشہ دن کا روزہ رکھے گا تو ایسی نذر کا پورا کرنا واجب نہیں۔‘‘[3]
ایسی نذر کا وہی کفارہ ہے جو قسم کا ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ نذر کا کفارہ، قسم کا کفارہ ہے۔ ‘‘[4]
قسم کا کفارہ دس مساکین کو کھانا کھلانا یا انہیں لباس دینا ہے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھنا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعا لیٰ ہے: ’’ قسم کا کفارہ دس مساکین کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کو لباس دینا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے اور جسے یہ میسر نہ ہوں ، وہ تین دن کے روزے رکھ لے۔ ‘‘[5]
ہمارے رجحان کے مطابق سائلہ کی امی کو چاہیے کہ وہ آئندہ اپنے حالات کو سامنے رکھ کر نذر مانا کرے ، البتہ صورت مسؤلہ میں وہ قسم کا کفارہ دے کر اس سے عہدہ بر آ ہو سکتی ہیں۔
[1] الدھر: ۷۔
[2] صحیح البخاري، الایمان والنذور : ۶۷۰۰۔
[3] مجموع الفتاویٰ ص ۱۴۸ ج۱۳۔
[4] صحیح مسلم۔
[5] المائدة : ۸۹۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب