سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(611) اسقاط حمل کب جائز ہے؟

  • 20260
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2184

سوال

(611) اسقاط حمل کب جائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری بیوی پانچ ماہ کی حاملہ ہے، طبی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ بچہ ناقص الخلقت ہونے کی وجہ سے معمول کی زندگی نہیں گزار سکے گا، یا وہ کسی خطرناک موروثی بیماری کا شکار ہو گا، کیا ایسی صورت میں اس کا اسقاط جائز ہے؟ کیونکہ وہ پیدا ہونے کے بعد والدین اور معاشرہ پر بوجھ ہو گا، کتاب و سنت میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ماں کے پیٹ میں جو بچہ پرورش پاتا ہے، اسے جنین کہا جاتا ہے، اس کی تین حالتیں ہوتی ہیں۔

1) میاں بیوی دونوں کا مادہ منویہ مل کر نطفہ امشاج کی شکل میں رحم میں استقرار پاتا ہے پھر وہ جما ہوا خون بن جاتا ہے۔

2) دوسرے مرحلہ میں وہ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اور انسانی اعضاء کی تخلیق ہوتی ہے، حتی کہ انسانی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

3) تیسرے مرحلہ میں اس کے اندر روح پھونک دی جاتی ہے اور وہ جیتا جاگتا انسان بن جاتا ہے، ان تینوں مراحل کی ایک حدیث میں نشاندہی کی گئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک کی تخلیق اس کی ماں کے پیٹ میں اس طرح مکمل کی جاتی ہے کہ وہ چالیس روز تک نطفہ رہتا ہے پھر اتنی ہی مدت جما ہوا خون رہتا ہے پھر اتنی ہی مدت گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ چار باتیں لکھنے کے لیے اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے وہ اس کا کردار، اس کی عمر، اس کا رزق اور اس کا بدنصیب یا سعادت مند ہونا لکھتا ہے، پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔‘‘ [1]

 ان تینوں مراحل میں اسقاط جائز نہیں ہے کیونکہ شریعت نے نکاح کو اس لیے مشروع قرار دیا ہے کہ اس کے ذریعے توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جنم دینے والی عورت سے نکاح کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت کے باعث دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔‘‘ [2]

 نکاح کے اس مقصد کے پیش نظر اسلام نے ہمیں ہر اس عمل سے منع کیا ہے جو اس مقصد کے متصادم ہو مثلاً مانع حمل ادویات، نس بندی اور اسقاط حمل وغیرہ۔

٭ حمل کے پہلے مرحلہ کا اسقاط اس لیے منع ہے کہ عورت کے رحم میں نطفہ قرار پا جانے کے بعد بالآخر وہ زندگی اختیار کر لیتا ہے، اس لیے اس نطفہ امشاج پر بھی زندگی کا حکم ہو گا حرم میں چڑیا کا انڈا توڑ دینا، زندہ چڑیا شکار کرنے کے حکم میں ہے، لہٰذا رحم مادر میں نطفہ کے جانے اور قرار پانے کے بعد اس کوبرباد کرنا جائز نہیں ہے اور اعضاء کی تخلیق سے پہلے بھی ایسا عمل اختیار کرنا جس سے وہ تولید کے قابل نہ رہے اور اس کا اسقاط ہو جائے، درست نہیں ہے۔

٭ حمل کا دوسرا مرحلہ جب کہ اس کے اعضاء تخلیق ہو جائیں، اس کا اسقاط بھی حرام ہے اگرچہ اس میں جان نہ پڑھی ہو کیونکہ ایسی صورت میں وہ حمل عورت کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے، جس طرح کسی کا قتل کرنا درست نہیں، اس کے جسم کے کسی حصہ کو کاٹ دینا بھی جائز نہیں ہے پھر یہ جسم اور اس کا ہر ہر حصہ اللہ تعالیٰ کی ملک ہے۔ ہم اللہ کی ملک میں اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی بھی تصرف کرنے کے مجاز نہیں ہیں، کسی انسان کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنے جسم کے کسی حصہ کو کاٹ ڈالے یا خود کشی کرے اگرچہ یہ اسقاط قتل نفس کے درجہ کا گناہ نہیں تاہم اس کے ناجائز ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔

٭ حمل کا تیسرا مرحلہ، جب جنین میں جان پڑ جائے اور یہ چار ماہ کے بعد ہوتا ہے، اس مرحلہ میں اس کا اسقاط حرام اور ناجائز ہے کیونکہ اس میں روح اور آثار زندگی پیدا ہو چکے ہیں، اس حالت میں اسے ضائع کرنا قتل نفس کے برابر ہے۔ اس میں اور دوسرے انسانوں کے قتل میں فرق یہ ہے کہ اسے ماں کے پیٹ میں قتل کرنا ہے اور د وسرے انسان کو دنیا میں آجانے کے بعد مار دینا ہے، دونوں میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِيَّاكُمْ١ؕ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا﴾ [3]

’’اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشے سے مت قتل کرو، ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔ بلاشبہ ان کا قتل بہت بھاری گناہ ہے۔‘‘

 اس آیت کے مخاطب جہاں وہ لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو اس دنیا میں آنے کے بعد زندہ درگور کرتے تھے وہ لوگ بھی ہیں جو شکم مادر میں پرورش پانے والے بچوں کو زندگی سے محروم کر دیتے ہیں، اگر ایسی صورت سامنے آجائے کہ ماں کی جان خطرے میں ہو اور حمل کے اسقاط کے بغیر اس کی جان بچانا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں حمل کا اسقاط کیا جا سکتا ہے خواہ وہ کسی مرحلہ میں ہو کیونکہ سنگین نقصان سے بچنے کے لیے ہلکے نقصان کو برداشت کر لینا عین انصاف اور قرین قیاس ہے۔ ماں کی موت ایک سنگین نقصان ہے اور اس کے مقابلہ میں حمل کا اسقاط اس سے کم درجہ کا نقصان ہے پھر ڈاکٹر حضرات کی تشخیص کوئی یقینی اور حتمی نہیں ہوتی کہ اسے بنیاد بنا کر ایک جان کو ضائع کر دیا جائے، ان کی تحقیق ایک ’’ظن‘‘ کے درجہ میں ہے کہ یہ بچہ آیندہ معمول کی زندگی نہیں گزار سکے گا، شریعت میں ایسے ظن کو بنیاد بنا کر اتنا بڑا نقصان کرنا جائز نہیں ہے۔ صورت مسؤلہ میں حمل کو پانچ ماہ گزر چکے ہیں اور وہ تیسرے مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے اس لیے ڈاکٹروں کے کہنے پر اسے ضائع کرنا غیر قانونی اور غیر اسلامی بلکہ غیر انسانی حرکت ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری، بدء الخلق: ۳۲۰۸۔  

[2] ابوداود، النکاح: ۲۰۵۰۔

[3] ۱۷/بنی اسرائیل: ۳۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:506

محدث فتویٰ

تبصرے