سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(597) تکبیر پڑھ کر اونٹ کی دُم کاٹنا

  • 20246
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 717

سوال

(597) تکبیر پڑھ کر اونٹ کی دُم کاٹنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر اونٹ کسی گہرے گڑھے میں گِر جائے جہاں سے اسے زندہ نکالنا مشکل ہو اور اسی حالت میں پڑا رہنے سے اس کے مرنے کا اندیشہ ہو تو ایسے حالات میں کیا کیا جائے؟ ہمارے ہاں ایک آدمی نے مسئلہ بیان کیا کہ بسم اللہ، اللہ اکبر پڑھ کر اس کی دم کو کاٹ دیا جائے تو وہ ذبح ہو جاتا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسؤلہ میں جو اونٹ کو ذبح کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے، اس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ جہالت پر مبنی ایک رسم معلوم ہوتی ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے ’’جب کسی قوم کا کوئی اونٹ بدک جائے اور قوم میں سے کوئی شخص خیر خواہی کی نیت سے اسے تیر سے نشانہ لگا کر مار ڈالے تو جائز ہے‘‘ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اس کی تائید کرتی ہے۔[1]

 حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے الفاظ حسب ذیل ہیں، فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، ایک اونٹ بدک کر بھاگ نکلا تو ایک آدمی نے اسے اپنے تیر سے مارا، اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اونٹ بھی بعض اوقات جنگلی جانوروں کی طرح بدکتے ہیں، لہٰذا ان میں جو تمہارے قابو سے باہر ہو جائیں ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو۔‘‘[2]

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کسی وجہ سے جانور کو ذبح کرنا مشکل ہو جائے تو تیر یا نیزہ مار کرا سے حلال کرنا درست ہے اور ایسا کرنا ذبح ہی کی طرح ہے، اس کا گوشت استعمال کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے۔ صورت مسؤلہ میں اگر واقعی اونٹ کو باہر نہیں نکالا جا سکتا تو اسے تکبیر پڑھ کر نیزہ وغیرہ سے حلال کیا جا سکتا ہے، لیکن بسم اللہ واللہ اکبر پڑھ کر صرف اس کی دم کاٹنے والی بات جاہلانہ رسم ہے، عقل و نقل سے اس کا ثبوت نہیں ملتا، حدیث میں بیان کردہ صورت پر صورت مسؤلہ کو قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جب بھی کسی جانور کو ذبح نہ کیا جا سکتا ہو تو اس کے ساتھ حدیث میں بیان کردہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری، الذبائح باب نمبر۳۷۔ 

[2] صحیح بخاری، الذبائخ: ۵۵۴۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:494

محدث فتویٰ

تبصرے