السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’تین آدمیوں کے لیے امیر شرعی کے بغیر رہنا جائز نہیں۔‘‘ یہ حدیث کس کتاب میں ہے اس کا مفہوم کیا ہے نیز وضاحت کریں کہ وہ تین قسم کے لوگ کون کون سے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث امام احمد، سنن بیہقی اور ابوداؤد میں ہے، سوال میں مذکورہ الفاظ مجھے نہیں مل سکے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آبادی سے باہر جب مکین ہوں تو انہیں اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنا لینا چاہیے۔‘‘ [1]
اس حدیث کا تعلق سفر سے ہے کہ دوران سفر کسی کو امیر سفر بنا لینا چاہیے تاکہ اجتماعیت برقرار رہے اور نظم و ضبط کے ساتھ سفر جاری رکھ سکیں۔ چنانچہ حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تین آدمی سفر کو نکلیں تو کسی ایک کو امیر ضرور بنائیں۔‘‘ [2]
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ حدیث بیان کی تو وہ سفر میں تھے تو ان کے شاگرد حضرت نافع نے عرض کیا کہ اس حدیث کے پیش نظر آپ ہمارے امیر ہیں۔ [3]
واضح رہے کہ اس قسم کی امارت ’’امارت صغریٰ‘‘ کہلاتی ہے، جس میں سفر کی زندگی کو ایک ضابطہ سے ادا کیا جاتا ہے، پھر انسان کو امارت کبریٰ کے قیام کے لیے بھی کوشاں رہنا چاہیے، جسے قرآن نے ’’اولی الامر‘‘ سے تعبیر کیا ہے، اس کی اطاعت مشروط ہوتی ہے، جب تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق عمل پیرا ہوں گے، ان کی اطاعت ضروری ہے بصورت دیگر ان کی اطاعت ضروری نہیں، بہر صورت مندرجہ بالا حدیث سفر سے متعلق ہے کہ سفر کرتے وقت انسان کو چاہیے کہ اپنے سے بہتر کسی شخص کو امیر بنا کر اپنے سفر کو جاری رکھے، اس سےمراد حدود اللہ قائم کرنے والا امیر نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] مسند امام احمد،ص: ۱۷۷۷، ج۲۔
[2] ابوداود، الجہاد: ۲۶۰۸۔
[3] بیہقی، ص: ۲۵۷،ج۵۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب