السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اکثر واعظین یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ دریائے نیل کا پانی بہنا بند ہو گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کی طرف ایک خط لکھا جب وہ خط دریائے نیل میں ڈالا گیا تو اس کا پانی دوبارہ جاری ہو گیا، یہ واقعہ صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ واقعہ بایں الفاظ مشہور ہے کہ جب مصر فتح ہوا تو لوگوں نے فوج کے سالار حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارےہاں دریائے نیل اس وقت بہتا ہے جب قمری مہینہ کی گیارہ تاریخ کو رات کے وقت ایک جوان لڑکی اس کی نذر کی جائے، حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر جواب دیا کہ اسلام میں ایسا نہیں ہو سکتا، تاہم انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اس سلسلہ میں ایک خط لکھا، امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک جوابی رقعہ لکھا جس میں یہ عبارت تحریر تھی: ’’اللہ کے بندے عمر کی طرف سے دریائے نیل کے نام! اگر تو خود بخود بہتا ہے تو ہمیں تیری قطعاً کوئی ضرورت نہیں اور اگر تجھے اللہ تعالیٰ جاری کرتا ہے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے جاری کر دے۔‘‘ جب یہ خط دریائے نیل میں ڈالا گیا تو وہ دس ہاتھ بلند ہو کر بہنے لگا۔ [1]
تفسیر ابن کثیر میں بھی یہ واقعہ بیان ہوا ہے [2] لیکن یہ روایت ضعیف اور ناقابل قبول ہے بلکہ یہ تمام قصہ بے بنیاد اور باطل ہے کیونکہ اسے بیان کرنے والا عبداللہ بن لہیعہ راوی مدلس ہے جو اپنے استاد قیس بن حجاج سے بصیغہ عن بیان کرتا ہے۔
قیس بن حجاج تبع تابعی ہے جو اپنے نا معلوم استاد سے اس کہانی کو بیان کرتا ہے وہ ’’عمن حدثہ‘‘ کے الفاظ سے اس روایت کو ذکر کرتا ہے۔ بہرحال یہ قصہ صحیح سند سے ثابت نہیں ہے واعظین کو چاہیے کہ وہ ایسے بے بنیاد قصے کہانیاں بیان کرنے سے اجتناب کریں۔ (واللہ اعلم)
[1] البدایہ والنھایۃ،ص: ۲۳، ج۱۔
[2] تفسیر ابن کثیر: ۴۶۴،ج۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب