سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(564) امامت و خطابت کی اجرت متعین کرکے لینا

  • 2022
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1398

سوال

(564) امامت و خطابت کی اجرت متعین کرکے لینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسئلہ یہ ہے کہ کیا امامت ، خطابت ، تدریس قرآن ، نماز تراویح میں قرآن سنانا ، قرآنی دم اور قرآنی تعویز کی اجرت متعین کر کے لینا اس کا شرع میں کیا حکم ہے بالدلائل جواب دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

صحیح بخاری جلد دوم کتاب الطب باب الشرط فی الرقیۃ بقطیع من الغنم صفحہ ۸۵۴ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے آخر میں ہے:

«فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ عَلٰی شَاءٍ فَبَرَأَ فَجَاءَ بِالشَّاءِ إِلٰی اَصْحَابِهِ فَکَرِهُوْا ذٰلِکَ وَقَالُوْا أَخَذْتَ عَلٰی کِتَابِ اﷲِ أَجْرًا حَتَّی قَدِمُوْا الْمَدِيْنَةَ فَقَالُوْا يَا رَسُوْلَ اﷲِ اَخَذَ عَلٰی کِتَابِ اﷲِ أَجْرًا فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ اِنَّ اَحَقَّ مَا اَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا کِتَابُ اﷲِ»

’’صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک آدمی گیا تو اس نے چند بکریوں کے عوض سورۃ الحمد پڑھ کر دم کیا وہ آدمی تندرست ہو گیا وہ بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا انہوں نے اس کو برا سمجھا اور کہا تو نے اللہ کی کتاب پر مزدوری لی ہے یہاں تک کہ وہ مدینہ آئے اور انہوں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ اس نے اللہ کی کتاب پر مزدوری لی ہے تو رسول اللہﷺنے فرمایا جس پر مزدوری لینے کے تم سب سے زیادہ حق دار ہو وہ اللہ کی کتاب ہے‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوا اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید پر اجرت لینا درست ہے خواہ دم کی صورت ہو خواہ تعلیم کی خواہ نماز وغیرہ میں سنانے کی ایسی صورت نہ ہو جہاں ویسے بھی قرآن پڑھنا شرع سے ثابت نہ ہو جیسے قبر پر قرآن پڑھنا درست نہیں کیونکہ آپﷺ کے لفظ  إِنَّ اَحَقَّ الخ کلام مستقل اور عام ہیں

«وَالْعِبْرَةُ بِعُمُوْمِ اللَّفْظِ لاَ بِخُصُوْصِ السَّبَبِ اِلاَّ اَنْ يَمْنَعَ مِنَ الْعُمُوْمِ مَانِعٌ»

’’اعتبار لفظوں کے عموم کا ہو گا نہ کہ سبب کے خصوص کا مگر یہ کہ عموم سے کوئی چیز مانع ہو‘‘

رہے قرآنی اور غیر قرآنی تعویذ تو وہ رسول اللہﷺسے ثابت ہی نہیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

خرید و فروخت کے مسائل ج1ص 391

محدث فتویٰ

تبصرے