السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فوٹو گرافی کا پیشہ اختیار کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے، جبکہ آج تصویر ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ قرآن و سنت کے مطابق اس کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت میں تصویر کشی حرام ہے، اس بنا پر فوٹو گرافی کا پیشہ اختیار کرنا بھی حرام ہے، حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن لوگوں میں سب سے سنگین عذاب تصویر بنانے والوں کو ہو گا۔ [1]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے کہا اے ابن عباس رضی اللہ عنہ ! میری معیشت میرے ہاتھ کا ہنر ہے اور میں تصاویر بنا کر فروخت کرتا ہوں، یہی میرا ذریعہ معاش ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں تجھے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سناتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے بھی کوئی تصویر بنائی تو اللہ اسے اس وقت تک عذاب سے دو چار رکھے گا، جب تک وہ شخص اپنی بنائی ہوئی تصویر میں جان نہ ڈال دے اور وہ کبھی اس میں جان نہیں ڈال سکے گا۔‘‘
وہ آدمی یہ حدیث سن کر کانپ اٹھا اور اس کا رنگ فق ہو گیا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تیرا اور کوئی ذریعہ نہ ہو تو ایسی چیزوں کی تصویریں بنا جس میں روح نہ ہو مثلاً درخت وغیرہ۔ [2]
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’ان تصاویر کی خرید و فروخت جن میں روح نہ ہو۔‘‘[3]
ہمارے ہاں جو فوٹو گرافی کا پیشہ کرتے ہیں وہ انسانوں کی تصویریں بناتے ہیں، اس لیے یہ پیشہ شرعاً درست نہیں ہے البتہ ایسی چیزوں کی تصاویر بنانا اور اسے بطور پیشہ اختیار کرنا جائز ہے جن میں روح نہ ہو جیسا کہ حدیث کے آخر میں وضاحت ہے اگر تم تصاویر بنانا ہی چاہتے ہو تو ان درختوں کی اور ہر اس چیز کی تصویر بنا سکتے ہو جس میں روح نہ ہو۔ ہماری مجبوری اور تصویر کا زندگی کے لیے جزو بن جانا ایک الگ موضوع ہے، لیکن اس سے یہ بات کشید نہیں کی جاسکتی کہ اسے بطور پیشہ اختیار کرنا جائز ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری، اللباس: ۵۹۵۴۔
[2] صحیح بخاری، البیوع: ۲۲۲۵۔
[3] بخاری، البیوع، باب نمبر۱۰۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب