سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(559) محرم عورت کے ہمراہ غیر محرم کو عمرہ پر لے جانا

  • 20208
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1202

سوال

(559) محرم عورت کے ہمراہ غیر محرم کو عمرہ پر لے جانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہماری پڑوسن کا کوئی محرم رشتہ دار موجود نہیں، وہ ہمارے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے جانا چاہتی ہے جب کہ میرے ساتھ میری والدہ اور بیوی ہے، کیا شرعاً اسے ہم ساتھ لے جا سکتے ہیں؟ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام نے کسی عورت کو محرم کے بغیر سفر کرنے کی اجازت نہیں دی ہے، کیونکہ سفر ایک عذاب کا ٹکڑا ہے، صنف نازک کو دوران سفر معاونت کی ضرورت پڑ سکتی ہے، ایسے حالات میں محرم ہی اس کے کام آسکتا ہے، اس کے علاوہ عورت کی پاکدامنی اور ناموس کی حفاظت کا تقاضا ہے کہ وہ محرم کے بغیر کوئی بھی سفر نہ کرے، جیسا کہ حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کوئی بھی عورت محرم کے بغیر ہرگز سفر نہ کرے۔‘‘

 آپ کا یہ فرمان سن کر ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا تو فلاں فلاں جنگ میں نام لکھا گیا ہے، میں وہاں جا رہا ہوں اور میری بیوی حج پرجا رہی ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنی بیوی کے ساتھ حج پر جاؤ۔‘‘ [1]

 رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جہاد جیسے اہم فریضے کو چھوڑ کر بیوی کے ساتھ جانے کا حکم دیا جو حج کا ارادہ رکھتی تھی، یہ حکم اس بات کی دلیل ہے کہ سفرمیں عورت کے لیے محرم کا ہونا ضروری ہے، اس سے معلوم ہوا کہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا، ٹریول ایجنٹ حضرات محرم کے بغیر جانے والی عورت کے ساتھ کسی اجنبی شخص کو بطور محرم نتھی کر دیتے ہیں، جب کہ ایسا کرنا جھوٹ اور فراڈ کے علاوہ شریعت اور سعودی قانون کی خلاف ورزی ہے، ہمارے رجحان کے مطابق ایسی عورت پر حج فرض ہی نہیں جس کا کوئی محرم نہیں ہے، کیونکہ عورت کے لیے زاد سفر کے علاوہ محرم کا ہونا بھی شرط ہے، اندیشہ ہے کہ ایسا کرنے سے ثواب کے بجائے گناہ ملے، لہٰذا اس قسم کے حیلہ سے اجتناب کیا جائے۔ واضح رہے کہ عورت کا ہر وہ شخص محرم بن سکتا ہے جس سے کبھی بھی نکاح نہیں کر سکتی۔ مثلاً باپ، بھائی اور بیٹا وغیرہ، جن رشتے داروں سے وقتی طور پر نکاح حرام ہے مثلاً بہنوئی اور پھوپھا وغیرہ، وہ محرم نہیں بن سکتے، اس کے علاوہ عورت کا دیور، چچا زاد اور ماموں زاد بھی اس کامحرم نہیں بن سکتا، یاد رہے کہ محرم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مرد مسلمان، عاقل اور بالغ ہو، نیز وہ عورت پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو۔ (واﷲ اعلم)


[1] صحیح بخاری، الجہاد: ۳۰۰۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:464

محدث فتویٰ

تبصرے