سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(553) اولاد کی خاطر دوسری عورت کا پیٹ کرایہ پر لینا

  • 20202
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 762

سوال

(553) اولاد کی خاطر دوسری عورت کا پیٹ کرایہ پر لینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں جرمنی میں رہائش پذیر ہوں، میری بیوی کے رحم میں کوئی خرابی ہے، جس کی وجہ سے استقرار حمل نہیں ہوتا، مجھے کچھ دوستوں نے مشورہ دیا ہے کہ ہم میاں بیوی کے نطفہ امشاج کو کسی تیسری عورت کے رحم میں رکھ کر صاحب اولاد ہو سکتے ہیں، ہمارے ہاں اس طرح کی عورتیں دستیاب ہیں جو اپنا پیٹ کرایہ پر دیتی ہیں، اس طرح اولاد حاصل کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ قرآن وحدیث کے مطابق ہمیں آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال میں ذکر کردہ صورت حال جدید میڈیکل کی ترقی، مادہ پرستی اور حصول زر کے برگ وبار ہیں، یہ وبا ہندوستان میں بھی عام ہے، وہاں مجبور وبے بس عورتیں کسی غیر مرد کے نطفہ کی نشوونما کے لیے اپنے رحم کرایہ پر دیتی ہیں، اس طرح انہیں خاصی رقم مل جاتی ہے، ہمارے رجحان کے مطابق یہ کاروبار ناجائز اور حرام ہے جس کی حسب ذیل وجوہات ہیں:

٭ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق بچے کی وہ ماں ہوتی ہے جو اسے جنم دے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا الّٰٓـِٔيْ وَلَدْنَهُمْ١ ﴾[1]

’’ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوںنے انہیں جنم دیا ہے۔‘‘

 ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَيْـًٔا١ۙ ﴾[2]

’’اﷲ تعالیٰ نے تمہیں، تمہاری ماؤں کے پیٹ سے بایں حالت نکالا کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے۔‘‘

 جب کہ صورت مسؤلہ کے مطابق بچہ جنم دینے والی کے بیضۃ المنی سے وہ بچہ پیدا نہیں ہوا بلکہ مخلوط مادہ منویہ کو اس کے رحم میں رکھا گیا ہے، بچہ تو اسی عورت کا جزو ہے جس کا بیضۃ المنی اس کے معرض وجود میں آنے کا سبب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ماں وہی عورت ہے جس کے بیضۃ المنی سے اس کی پیدائش ہوئی ہے، ایسے حالات میں پیدا ہونے والے بچے کی ماں کس عورت کو قرار دیا جائے گا؟ ہمارے نزدیک وہ عورت جس کے رحم میں شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کا مادہ منویہ پہنچایا گیا ہے وہ بدکار اور زانیہ عورت ہے، جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔

 پھر میاں بیوی کے مادہ منویہ کا حاصل کرنا اپنی جگہ پر قابل اعتراض ہے، اس کی بعض صورتیں شرعاً حرام ہیں، اس بنا پر ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ حصولِ اولاد کے لیے کسی بھی ناجائز کام کا سہارا لے بلکہ اسے صبر سے کام لینا چاہیے اور اﷲ تعالیٰ سے آہ وزاری کے ساتھ دعا کرتا رہے، اس کے علاوہ کثرتِ استغفار کو اپنا معمول بنائے، اﷲ تعالیٰ اسے اس عالم رنگ وبو میں اولاد سے محروم نہیں رکھے گا۔ قرآن کریم میں ایسے واضح اشارات ملتے ہیں کہ کثرت سے استغفار سے اﷲ تعالیٰ اولاد نرینہ عطا کرتا ہے۔ (واﷲ اعلم)


[1] ۵۸/المجادلۃ: ۲۔ 

[2]  ۱۶/النحل: ۷۸۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:459

محدث فتویٰ

تبصرے