السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کوئی عورت نکاح کے چھ ماہ بعد بچے کو جنم دے تو شرعاً اس بچے کی کیا حیثیت ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن کریم نے ایک مقام پر حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت یکجا بیان کی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا١﴾[1]
’’اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر مدت رضاعت بیان کی ہے کہ رضاعت کی پوری مدت دو سال ہے۔ [2]
تیسرے مقام پر فرمایا کہ
﴿وَ فِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ ﴾[3]
’’ماں کو دودھ چھڑانے میں دو سال لگ گئے۔‘‘
ان آیات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے کیونکہ قرآن کریم نے حمل اور دودھ چھڑانے کی مجموعی مدت تیس ماہ بیان کی ہے پھر دودھ چھڑانے کی مدت دو سال کا ذکر کیا، اس مدت رضاعت کو مجموعی مدت سے منہا کریں تو باقی چھ ماہ حمل کی مدت رہ جاتی ہے، چنانچہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان آیات سے یہ استدلال کیا ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے جیسا کہ حضرت معمر بن عبداﷲ جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے قبیلہ کے ایک آدمی نے کسی عورت سے شادی کی تو اس نے شادی کے چھ ماہ بعد بچہ جنم دیا، اس کے خاوند نے اس امر کا ذکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نے اس عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا، جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے مذکورہ بالا آیات سے استدلال کر کے مسئلہ کی وضاحت کی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔[4]
ہمارا رجحان بھی یہ ہے کہ چھ ماہ کے بعد اگر کسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوجائے تو وہ بچہ حرامی نہیں بلکہ حلال ہی کا ہو گا اور اگر چھ ماہ سے پہلے پیدا ہوجائے تو وہ موجودہ خاوند کانہیں بلکہ کسی اور مرد کا ہو گا۔ زیادہ واضح الفاظ میں وہ لڑکا ولدالزنا ہو گا اور اس کا وراثت سے بھی کچھ تعلق نہیں ہو گا اور بچے کی ماں کو زنا کی حد پڑ سکتی ہے۔ موجودہ طبی تحقیقات کے مطابق حمل کی کم از کم مدت ۲۸ ہفتے قرار دی گئی ہے، اگر یہ تحقیق صحیح ہو تو بھی شریعت نے اس مسئلہ کی اہمیت ونزاکت کے پیش نظر اس مدت میں انتہائی احتیاط سے کام لیاہے اور حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ قرار دی ہے، چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہو تو والد یا عورت کا خاوند اس کے نسب سے انکار کرنے کا مجاز نہ ہو گا۔ (واﷲ اعلم)
[1] ۴۶/الاحقاف: ۱۵۔
[2] ۲/البقرۃ: ۲۳۳۔
[3] ۳۱/لقمان: ۱۴۔
[4] تفسیر ابن کثیر، ص: ۱۶۶، ج۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب