سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(548) باپ کی غیر منصفانہ بات ماننا

  • 20197
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1094

سوال

(548) باپ کی غیر منصفانہ بات ماننا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے بھائی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا، عقیقہ کے موقع پر مجھے والدین نے دعوت دی، لیکن اس دن میرے خاوند کسی کام کی وجہ سے مصروف تھے، اس لیے ہم اس دن دعوت میں شریک نہ ہو سکے، میرے والد محترم اس بات پر میرے خاوند سے بہت ناراض ہوئے اور مجھے ان سے علیحدگی اختیار کرنے پرزور دیتے ہیں جبکہ میرے اپنے خاوند سے تعلقات بہت اچھے ہیں اور مجھے کوئی تکلیف نہیں، اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ بہت پریشان ہوں، ایک طرف خاوند ہیں تو دوسری طرف میرے والد محترم ہیں دونوں کا کہا ماننا ضروری ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسؤلہ میں والد محترم کا رویہ عدل وانصاف کے منافی ہے، خاص طور پر لڑکیوں کے معاملہ میں تو انہیں بہت بردباری اور تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، وجہ نزاع بھی اتنی بڑی نہیں ہے کہ لڑکی کو خاوند سے علیحدگی اختیار کرنے کا مشورہ دیا جائے بلکہ اسے مجبور کیا جائے، ایسے حالات میں لڑکی کا اپنے والد محترم کی بات مان کر گھر بیٹھ رہنا یا اپنے خاوند سے علیحدگی اختیار کرنا اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، جس سے ہمیں اجتناب کرنا چاہیے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کام میں اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی ہو، اس کی بجاآوری کے لیے کسی کی بات کو نہ مانا جائے بلکہ اس کا انکار کر دیا جائے۔‘‘ [1]

 ہمارے رجحان کے مطابق ایسے حالات میں والد محترم کی بات کو نہ مانا جائے بلکہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری کی جائے ویسے بھی شادی کے بعد عورت اپنے خاوند کا کہا ماننے کی پابند ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں نے کسی کو حکم دینا ہوتا کہ وہ کسی انسان کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔‘‘ [2]

 ایک روایت کے مطابق اس کی وجہ بایں الفاظ بیان فرمائی کہ خاوند کا عورت پر بہت بڑا حق ہے۔ [3]

 شریعت کی نظر میں شوہر کی اطاعت کا حق والدین کی اطاعت سے بڑھ کر ہے چنانچہ سیدنا حصین رضی اللہ عنہ کی پھوپھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی کام کے لیے حاضر ہوئی، جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا:

’’کیا تم شوہر والی ہو؟‘‘ اس نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے پوچھا: ’’کیا تو اس کی خدمت کرتی ہے؟‘‘ وہ کہنے لگی میں حسب استطاعت اس کی خدمت بجا لاتی ہوں، پھر آپ نے فرمایا: ’’تم نے اس امر پر غور کرنا ہے کہ خاوند کا مقام ومرتبہ تیرے مقابلہ میں کس قدر بلند ہے وہ تیرے لیے جنت ہے یا دوزخ ہے۔‘‘[4]

 اس حدیث سے خاوند کے مرتبے اور مقام کا پتہ چلتا ہے کہ اس کی اطاعت، فرمانبرداری اور خدمت گزاری سے جنت حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ اس کی نافرمانی اور خدمت سے پہلو تہی دوزخ کا باعث ہے، لڑکی کو چاہیے کہ وہ نرمی کے ساتھ اپنے والد کو اپنے گھر کی آبادی کا احساس دلائے اور بلاوجہ ضد اور ہٹ دھرمی کے انجام سے آگاہ کرے۔ (واﷲ اعلم)


[1]  صحیح بخاری، الاحکام: ۷۱۴۴۔

[2] ابو داود، النکاح: ۲۱۴۰۔          

[3] السنن الکبریٰ للنسائی عشرۃ النساء: ۹۱۴۷۔

[4] مسند امام احمد، ص: ۳۴۱، ج۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:456

محدث فتویٰ

تبصرے