سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(533) عورتوں کا کھیلوں میں حصہ لینا

  • 20182
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 728

سوال

(533) عورتوں کا کھیلوں میں حصہ لینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورتوں کا کھیلوں میں حصہ لینا شرعاً کیسا ہے؟ حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ دوڑ لگانے کامقابلہ کیا تھا، اس واقعہ کو بنیاد بنا کر عورتوں کا کھیلوں میں حصہ لینا جائز قرار دیا جاتا ہے، قرآن وحدیث کی روشنی میں اس امر کی وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال میں جس واقعہ کو بنیاد بنا کر عورت کے لیے کھیلوں میں حصہ لینے کو جائز کیا گیا ہے ہم اس کی تفصیل بیان کر دیتے ہیں تاکہ اس بنیاد کا کھوکھلا پن ظاہر ہوجائے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان دوڑ لگانے کا واقعہ زندگی میں دو مرتبہ پیش آیا ہے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود بیان کرتی ہیں: ’’میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھی، اس وقت میری عمر زیادہ نہ تھی اور جسم بھی ہلکا پھلکا تھا، آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آگے بھیج دیا پھر آپ نے دوڑ لگائی، میں بھی آپ کے ساتھ اس دوڑ میں شریک تھی۔ چنانچہ میں آپ سے آگے بڑھ گئی، کافی عرصہ بعد میں پھر ایک مرتبہ آپ کے شریک سفر تھی جبکہ اس وقت میرا جسم بھاری ہو گیا تھا اورمیں گزشتہ واقعہ کو بھی بھول گئی تھی، آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آگے بھیج دیا پھر آپ نے میرے ساتھ دوڑ لگائی تو آپ آگے بڑھ گئے۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’یہ سبقت، اس جیت کے بدلے میں ہے۔‘‘[1]

 یہ واقعہ آبادی سے باہر کسی میدانی علاقہ میں پیش آیا، اس سے اچھے انداز میں معاشرتی زندگی کی تکمیل مقصود تھی تاکہ میاں بیوی کے درمیان محبت والفت اور یگانگت کا رشتہ مزید مضبوط ہو، خاوند کے لیے بیوی کے ساتھ اس طرح کامقابلہ کرنا اب بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ تنہائی میں ہو اور لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو، نیز اس سے کسی فتنہ کو ہوا نہ ملتی ہو۔ لیکن اس واقعہ سے برسر عام مقابلوں کا جوازکشید کرنا انتہائی محل نظر ہے۔ (واﷲ اعلم)


[1] مسند امام احمد، ص: ۲۶۴، ج۶۔   

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:447

محدث فتویٰ

تبصرے