سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(529) باپ کا بیٹے کا قرضہ اتارنا

  • 20178
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1049

سوال

(529) باپ کا بیٹے کا قرضہ اتارنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا ایک بیٹا شادی شدہ اور صاحب اولاد ہے، اس کے ذمے بہت سا قرض ہے لیکن اس کے مالی وسائل انتہائی محدود ہیں، کیا میں اپنی کمائی میں سے اس کا قرض اتار سکتا ہوں جب کہ احادیث میں اولاد کے درمیان عدل ومساوات کرنے کی تاکید ہے؟ اس کے متعلق میری راہنمائی کریں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اولاد کے درمیان عدل واجب ہے، کسی کو دینا اور کسی کو محروم کرنا یا ایک کو دوسرے پر فضیلت دینا حرام ہے، ہاں اگر کوئی معقول سبب ہو تو الگ بات ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔‘‘ [1]

 اگر اولاد میں سے کوئی بیمار ہے یا حصول علم میں کوشاں ہے تو ایسی وجوہات کی بنا ان پردوسروں سے زیادہ خرچ کیا جا سکتا ہے، ہمارے رجحان کے مطابق عدل ومساوات کی دو اقسام ہیں:

٭ ایک قسم تو وہ ہے کہ کچھ بچے اپنی صحت وبیماری میں خرچہ کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں، اس قسم کی ضرورت کے متعلق عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے، کم اور زیادہ ضرورت مند کے درمیان کوئی فرق نہ کیا جائے۔

٭ ایک قسم یہ ہے کہ ضروریات مشترک ہیں یعنی عطیہ، خرچہ اور شادی وغیرہ تو اس قسم میں کمی وبیشی کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن تمام بچوں پر مساوات کے ساتھ خرچ کیا جائے۔ لہٰذا اگر کوئی بچہ مقروض ہے اور اس کے مالی حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں تو اگر باپ اپنے بیٹے کا قرضہ اتارنے میں اس کا تعاون کرتا ہے تو ان شاء اﷲ ایسا کرنا مساوات کے خلاف نہیں ہے، امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس پر مؤاخذہ نہیں کرے گا۔ (واﷲ اعلم)


[1]  صحیح بخاری، الہبہ: ۲۵۸۷۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:443

محدث فتویٰ

تبصرے