سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(524) وعدہ سے انحراف کرنا

  • 20173
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 764

سوال

(524) وعدہ سے انحراف کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نے اپنے بھائی کے ساتھ اس کے کہنے پر ایک ایکڑزمین کا تبادلہ کیا۔ اس آدمی نے عدالت کے سامنے تبادلہ کا بیان دے دیا جبکہ فریق ثانی سے بیان لینے کی فوری ضرورت محسوس نہ کی گئی، بعد میں اس کابھائی یعنی فریق ثانی بیان دینے سے انکاری ہو گیا بالآخر کوشش بسیار کے بعد وہ بیان دینے پر اس شرط کے ساتھ آمادہ ہوا کہ پہلا شخص مشترکہ ڈیرہ سے دستبردار ہو جائے جو آٹھ مرلہ پر مشتمل ہے، پہلے شخص نے اقرار کیا اور ڈیرہ سے دستبردار ہو گیا، اب وہی شخص ڈیرہ سے اپنا حصہ وصول کرنا چاہتا ہے اوریہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ میں نے وہ بیان بامر مجبوری دیا تھا، اب کیا اسے مجبوری پر محمول کرتے ہوئے اپنا حصہ وصول کرنے کی شرعاً اجازت ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فریق ثانی نے وعدہ سے انحراف کر کے بہت زیادتی کی ہے جبکہ فریق اول نے اس کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا اور عدالت کے روبرو ایکڑ کے تبادلے کا بیان دیا، لیکن فریق ثانی کا اپنے بیان دینے کو مشترکہ ڈیرہ سے دستبرداری کے ساتھ مشروط کرنا بھی صحیح نہیں تھا تاہم فریق ثانی سے اپنا حق لینے کے لیے اسے قبول کر لیا، اور دستبرداری کا اعلان کر کے اسے چھوڑ دیا، اب اس کا اپنے وعدہ سے انحراف کرنا صحیح نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْا١ اِعْدِلُوْا١۫ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ﴾[1]

’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر مشتعل نہ کرے کہ تم عدل کرنا چھوڑدو، عدل کیا کرو، یہی بات تقویٰ کے قریب تر ہے۔‘‘

 فریق اول نے ڈیرہ سے دستبرداری کا اعلان کرتے وقت کسی قسم کی مجبوری کا اظہار نہیں کیا، اب اس کا یہ کہنا کہ میں نے اپنا ایکڑ لینے کے لیے بامر مجبوری بیان دیا تھا قابل سماعت ہے، مسلمانوں کو اپنی شرائط کی پاسداری کرتے ہوئے ان کو پورا کرنا چاہیے۔ اس بنا پر فریق اول کا اس سے انحراف صحیح نہیں ہے اور جب اس نے اس مشترکہ ڈیرہ سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے تو اب اسے اپنا متروکہ حصہ وصول کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم)


[1]۵/المائدة: ۸

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:439

محدث فتویٰ

تبصرے