السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کسی دوکاندار کے پاس گاہک کی مطلوبہ چیز نہیں تو یہ دوکاندار کسی دوسرے دوکاندار سے وہ چیز خریدے بغیر اپنے گاہک کو فراہم کرے اور اس چیزمیں سے کچھ نفع اپنے لیے رکھے اورکچھ نفع اور اصل رقم دوسرے دوکاندار کو دے تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟ قرآن وسنت سے دلیل دے کر ہمیں مطمئن کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خریدوفروخت کے معاملات میں حسب ذیل آیت کریمہ بنیادی حقیقت کی حامل ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ١۫ ﴾ [1]
’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ، درست صورت یہ ہے کہ باہمی رضا مندی سے آپس میں لین دین ہو۔‘‘
باطل طریقوں سے مراد ہر وہ ذریعہ آمدنی ہے جسے شریعت نے حرام قرار دیاہے اور باہمی رضامندی بھی شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہے، سودے بازی میں اگر باطل طریقہ اختیار کیا گیا یا ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو تو شریعت نے اس طرح مال کھانے اور اسے استعمال کرنے کو حرام قرار دیا ہے، اس وضاحت کے بعد ہم صورت مسؤلہ کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کی متعدد صورتیں ہمارے معاشرہ اور بازار میں رائج ہیں، ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
٭ دوکاندار کے پاس ایک گاہک آتا ہے اور اشیاء صرف خریدتا ہے، جبکہ دوکاندار کے پاس ضروریات کی ایک دو چیزیں نہیںہوتیں تو وہ دوسرے دوکاندار سے لے کر گاہک کو فراہم کرتا ہے، اس کی قیمت مع منافع دوسرے دوکاندار کو دے دیتا ہے، اس میں خیرخواہی اور گاہک کے لیے سہولت ہے، اس سے گاہک بھی ’’پکا‘‘ ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔
٭ پہلا دوکاندار اپنے نوکر کو اس چیز کی قیمت اپنے پاس سے دیتا ہے تاکہ وہ دوسرے دوکاندار سے خرید لائے پھر وہ اپنے گاہک کو مطلوبہ چیز فراہم کرتا ہے، اس صورت میں نفع لینے پر کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس نے اسے قیمت دے کر خرید لیا ہے پھر اسے آگے نفع کے ساتھ فروخت کیا ہے۔
٭ دوسرے دوکاندار سے مطلوبہ چیز خریدے بغیر یا شرح کمیشن طے کیے بغیر یابازار میں رائج عرف عام سے ہٹ کر کوئی چیز لے کر گاہک کو فراہم کرنا، پھر اپنی مرضی سے دوسرے دوکاندار کو رقم دینا، شرعاًایسا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ جب وہ کسی چیز کا مالک نہیں تھا تو اسے آگے فروخت کرنے کی اجازت نہ تھی، اگر مالک نہیں تھا تو کمیشن کی شرح طے کی ہوتی یا بازار میں رائج عرف کو پیش نظر رکھا ہوتا، لیکن اس صورت میں دوکاندار نے کسی چیز کو مدنظر نہیں رکھا لہٰذا یہ آخری صورت ناجائز ہے اور باطل طریقہ سے دوسرے کا مال کھانا ہے جس کی شریعت نے اجازت نہیں دی ہے۔ (واﷲ اعلم)
[1] ۴/النساء: ۲۹۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب