سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(515) بچے کا نام رکھنا

  • 20164
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1878

سوال

(515) بچے کا نام رکھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے بھائی کے ہاں اک خوبصورت بچہ پیدا ہوا ہے، ہم اس کا بہترین، خوبصورت نام رکھنا چاہتے ہیں، نام رکھنے کے متعلق شرعی ہدایات کی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولادت کے بعد بچے کا نام رکھنا انتہائی اہم کام ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نعمت کے حاصل ہونے کے بعد نومولود کا بہترین نام بھی اظہار تشکر کا ایک انداز ہے، نام نہ صرف شناخت کا باعث ہوتے ہیں بلکہ انسان کی شخصیت پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا مسلمان والدین پر فرض ہے کہ وہ اپنے بچے کا بامعنی، خوبصورت، دلکش اور اسلامی نام رکھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے نام رکھنے کی تلقین فرمائی ہے اور برے اور شرکیہ ناموں سے منع فرمایا ہے چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے ناموں میں سے دو نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہیں۔‘‘ [1]

 اس کا مطلب یہ ہے کہ نام رکھتے وقت کسی ایسے نام کا انتخاب کیا جائے، جس سے اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبودیت کا اظہار ہوتا ہو، ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نومولود کا نام کسی نبی کے نام پر بھی رکھا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت ابو وہب جثمی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم حضرات انبیاء علیہم السلام والے نام رکھو۔‘‘ [2]

 پھر ایسے ناموں کا انتخاب کیا جائے جو معنی خیز اور صداقت پر مبنی ہوں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ تمام ناموں میں سب سے زیادہ صداقت و سچائی کا اظہار کرنے والے دو نام حارث اور ہمام ہیں۔ [3]

 حارث کا معنی کمال اور کھیتی باڑی کرنے والا اور ہمام کا معنی سوچ و بچار میں مصروف رہنے والا ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ناموں سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے جو اسلامی شخصیت و وقار میں ایک داغ کی حیثیت رکھتے ہوں، اس قسم کے ناپسندیدہ اور مکروہ نام حسب ذیل ہیں:

٭ ایسا نام جو انتہائی قبیح اور جس سے آدمی کی عزت پر حرف آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کے برے ناموں کو تبدیل کر دیتے تھے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برے نام بدل دیتے تھے۔[4]

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک لخت جگر کا نام عاصیہ یعنی ’’نافرمانی کرنے والی‘‘ تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام بدل کر جمیلہ ’’خوبصورت‘‘ رکھ دیا۔ [5]

 امام ابوداؤد نے چند ایک ناموں کی فہرست دی ہے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کیا تھا۔ [6]

٭ ایسے ناموں سے بھی اجتناب کرنا چاہیے جن سے بدشگونی اور نحوست والے معانی ظاہر ہوتے ہوں، حضرت سعید بن مسیب اپنے باپ حضرت مسیّب رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کا باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس کا نام دریافت فرمایا اس نے جواب دیا میرا نام حزن ہے (جس کا معنی غم اور پریشانی ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنا نام سہل رکھ لو۔‘‘ (جس کا معنی سہولت اور نرمی ہے) اس نے جواب دیا میں اپنے باپ کا رکھا نام تبدیل نہیں کر سکتا۔ حضرت سعید بن مسیّب کا بیان ہے کہ اس وقت سے ہمارا خاندان قلق و پریشانی اور بے چینی و اضطراب کا شکار ہے۔ [7]

٭ اپنے بچوں کا ایسا نام بھی نہ رکھا جائے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن سب سے بدترین اور ناپسندیدہ شخص وہ ہو گا جو خود کو شاہان شاہ کہلواتا تھا کیونکہ تمام بادشاہوں کا بادشاہ تو اللہ تعالیٰ ہے۔‘‘ [8]

 ایسے ناموں کے شروع میں لفظ عبد کا اضافہ کر کے رکھے جا سکتے ہیں۔

٭ ایسے ناموں سے بھی گریز کیا جائے جن میں خوشحالی اور برکت وغیرہ کا مفہوم پایا جاتا ہو کیونکہ ان ناموں میں یہ قباحت ہے کہ جب کبھی دوسرے شخص سے اس نام والے کے متعلق پوچھا جائے گا آیا وہ گھر میں موجود ہے، اگر وہ شخص گھر میں موجود نہ ہو تو جواب میں کہا جائے گا نہیں، مثلاً یسار گھر میں ہے اور جواب دیا جائے کہ آسانی گھر میں نہیں ہے، تو یہ صورت حال خوش حالی کے خلاف ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ [9]

٭ ایسے ناموں سے اجتناب کیا جائے جن میں لفظ عبد کو غیر اللہ کے ساتھ ملایا گیا ہو جیسا کہ کسی کا نام عبدالنبی رکھ دیا جائے یا عبدالعزیٰ یعنی عزیٰ کا بندہ وغیرہ۔ پوری امت مسلمہ کے نزدیک اس قسم کے نام رکھنا حرام ہیں، کیونکہ اس میں عبودیت کا اظہار غیر اللہ کے لیے ہے۔

٭ ایسے ناموں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے جن سے اسلامی قدر و منزلت مجروح ہونے کا اندیشہ ہو یا ان سے کفار کے ساتھ مشابہت کا پہلو نکلتا ہو یا ان سے ہلاکت و عذاب جیسے معانی کا اظہار ہوتا ہو جیسا کہ احلام: پراگندہ خواب دیکھنے والی، غادہ: چڑھتی جوانی والی عورت، شہاب: شعلہ چنگاری، حرب: جنگ و جدال وغیرہ، اس طرح پرویز وہ بادشاہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک پھاڑ دیا تھا، ایسے ناموں سے اسلامی تشخص مجروح ہوتا ہے لہٰذا ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔

٭ ہمارے ہاں یہ بھی رواج ہے کہ جو لفظ قرآن میں آئے وہ نام اپنی بیٹی یا بیٹے کے لیے منتخب کر دیا جاتا ہے خواہ اس کا معنی کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو جیسا کہ آنیہ کا معنی انتہائی گرم ہے۔ یہ نام عام طور پر بچیوں کے لیے رکھا جاتا ہے۔ نام رکھتے وقت اس کے معنی پر ضرور غور کرنا چاہیے۔


[1] صحیح مسلم، الآداب: ۲۱۳۲۔

[2] مسند امام احمد،ص: ۳۴۵،ج۴۔  

[3] ابوداود، الادب: ۴۹۵۰۔

[4] ترمذی، الادب: ۲۹۳۹۔

[5]  صحیح مسلم، الآداب: ۲۱۳۹۔   

[6]  ابوداود، الادب: ۴۹۶۵۔  

[7]  صحیح بخاری، الادب: ۶۱۹۰۔

[8]  صحیح مسلم، الآداب: ۲۱۴۳۔  

[9]  صحیح مسلم، الآداب: ۲۱۳۷۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:429

محدث فتویٰ

تبصرے