سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(512) محرم کون کون ہے؟

  • 20161
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-25
  • مشاہدات : 3301

سوال

(512) محرم کون کون ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 میں نئی نئی مسلمان ہوئی ہوں اور چاہتی ہوں کہ شریعت کے مطابق زندگی بسر کروں، سب سے پہلے مجھے پردہ کے متعلق مشکلات کا سامنا ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں میری راہنمائی کریں کہ کن کن لوگوں سے مجھے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے، تاکہ میں ان کے علاوہ دوسروں سے پردہ کروں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اﷲ تعالیٰ آپ کو دین اسلام پر استقامت دے۔ آپ کا سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے، ہم اس کا جواب ذرا تفصیل سے دے دیتے ہیں تاکہ دوسری مسلمان خواتین بھی اس کی روشنی میں اپنے رویے پر نظر ثانی کریں۔

 عورت اپنے محرم مردوں سے پردہ نہیں کرے گی اور عورت کا محرم وہ ہوتا ہے جس سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو، حرمت نکاح کے تین اسباب ہیں:

 ۱۔ قرابت داری، ۲۔دودھ کا رشتہ، ۳۔سسرالی تعلق۔

نسبی محارم: قرابت داری کی وجہ سے محارم کی تفصیل حسب ذیل ہے:

1)  آباء واجداد: عورتوں کے باپ، ان کے اجداد اوپر تک، ان میں دادا اور نانا سب شامل ہیں۔

2) بیٹے: عورتوں کے بیٹے، ان میں بیٹے، پوتے، نواسے وغیرہ سب شامل ہیں۔

3)  عورتوں کے بھائی: ان میں حقیقی بھائی، باپ کی طرف سے اور ماں کی طرف سے تمام بھائی شامل ہیں۔

4)  بھانجے اوربھتیجے: ان میں بھائی کے بیٹے اور بہن کے بیٹے اور ان کی تمام نسلیں شامل ہیں۔

5) چچا اور ماموں: یہ دونوں بھی نسبی محارم میں شامل ہیں، انہیں والدین کا قائم مقام ہی سمجھا جاتا ہے، بعض دفعہ چچا کو بھی والد کہہ دیا جاتا ہے۔

رضاعی محرم: اس سے وہ مراد ہیں جو رضاعت یعنی دودھ کی وجہ سے محرم بن جاتے ہیں، حدیث میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے رضاعت سے بھی ان رشتوں کو حرام کیا ہے جنہیں نسب کی وجہ سے حرام کیا ہے۔[1] جس طرح نسبی محرم کے سامنے عورت کو پردہ نہ کرنا جائز ہے، اس طرح رضاعت کی وجہ سے محرم بننے والے شخص کے سامنے بھی اس کے لیے پردہ نہ کرنا مباح ہے یعنی عورت کے رضاعی بھائی، رضاعی والد اور رضاعی چچا سے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے رضاعی چچا، افلح آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے انہیں اجازت نہ دی بلکہ ان سے پردہ کر لیا، جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے پردہ نہ کرو اس لیے کہ رضاعت سے بھی وہی حرمت ثابت ہوتی ہے جو نسب کی وجہ سے ثابت ہوتی ہے۔ [2]

 اس حدیث کے مطابق عورت کے رضاعی محارم بھی نسبی محارم کی طرح ہیں لہٰذا رضاعی محارم سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سسرالی محارم: عورت کے سسرالی محارم سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جن سے شادی کی وجہ سے ابدی طور پر نکاح حرام ہوجاتا ہے جیسا کہ سسر اور اس کا بیٹا یا داماد وغیرہ۔ والد کی بیوی کے لیے محرم مصاہرت وہ بیٹا ہو گا جو اس کی دوسری بیوی سے ہو، سورۃ النور کی آیت ۳۱ میں اﷲتعالیٰ نے سسر اور خاوند کے بیٹوں کو شادی کی وجہ سے محرم قرار دیا ہے اور انہیں باپوں اوربیٹوں کے ساتھ ذکر کیا ہے اور انہیں پردہ نہ ہونے کے حکم میں برابر قرار دیا ہے۔

 مذکورہ محرم رشتہ داروں کے علاوہ جتنے بھی رشتہ دار ہیں ان سے عورت کو پردہ کرنا چاہیے خواہ وہ چچا، پھوپھی، خالہ اور ماموں کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں، اسی طرح خاوند کے چچا اور ماموں سے بھی بیوی کو پردہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ اس کے خاوند کے چچا یا ماموں ہیں اس کے نہیں ہیں۔ (واﷲ اعلم)


[1] مسند امام احمد، ص: ۱۳۱،ج۱۔

[2] صحیح مسلم، الرضاع: ۱۴۴۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:427

محدث فتویٰ

تبصرے