سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(509) خاوند کی اجازت کے بغیر پیسے لینا

  • 20158
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2153

سوال

(509) خاوند کی اجازت کے بغیر پیسے لینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے گھر میں اﷲ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ ہے، اس کے باوجود میرے خاوند گھریلو اخراجات کے متعلق بہت تنگ کرتے ہیں، ایسے حالات میں مجھے شرعاً اجازت ہے کہ میں گھریلو اخراجات کے لیے اپنے خاوند کی جیب سے اس کی اجازت کے بغیر پیسے نکال لوں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نکاح کے بعد بیوی کے جملہ اخراجات کی ذمہ داری خاوند پر عائد ہوتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’خوشحال کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق اخراجات پورے کرے اور تنگدست اﷲ کی دی ہوئی حیثیت کے مطابق خرچہ دے۔‘‘[1] اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی بات کی تلقین فرمائی ہے حدیث میں ہے: ’’بیوی کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کے اخراجات تمہارے ذمے ہیں۔‘‘[2]ان اخراجات میں کھانا، پینا، علاج، رہائش اور لباس وغیرہ شامل ہے، خاوند کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق ان اخراجات کو پورا کرے، اگر وہ ان اخراجات کی ادائیگی سے پہلو تہی کرتا ہے یا بخل سے کام لے کر پورے ادا نہیں کرتا تو بیوی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی بھی طریقہ سے خاوند کی آمدن سے انہیں پورا کر سکتی ہے جیسا کہ حضرت ھند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے خاوند کے متعلق شکایت کی کہ میرا خاوند ابو سفیان رضی اللہ عنہ گھریلو اخراجات پورے ادا نہیں کرتا تو کیا مجھے اجازت ہے کہ میں اس کی آمدن سے اتنی رقم اس کی اجازت کے بغیر لے لوں جس سے گھر کا نظام چل سکے، اس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اس کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر اتنا لے سکتی ہو جس سے معروف طریقہ کے مطابق تیرے اور تیری اولاد کی گزر اوقات ہو سکے یعنی گھر کا نظام چل سکے۔ [3] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:

 ’’اگر خاوند اخراجات پورے نہ کرے تو بیوی کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اس قدر لے لے جس سے معروف طریقہ کے مطابق اہل خانہ کا گزارا ہو سکے۔‘‘ مندرجہ بالا احادیث کے پیش نظر اگر خاوند گھریلو اخراجات کی ادائیگی میں کنجوسی کرتا ہے تو بیوی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اتنی رقم لے سکتی ہے جس سے گھر کا نظام چل سکے، لیکن یہ اجازت صرف ضروریات کے لیے ہے فضولیات کے نہیں نیز اگر ایسا کرنے سے بیوی خاوند کے درمیان اختلاف اور تعلقات کے کشیدہ ہونے کا اندیشہ ہے تو اس طریقہ سے اخراجات پورے نہیں کرنے چاہیے، کیونکہ بیوی خاوند کے تعلقات کی استواری مقدم ہے، اس بات کا فیصلہ بیوی خود کر سکتی ہے کہ ایسا کرنے سے تعلقات تو خراب نہیں ہوں گے، بہرحال ایسے حالات میں ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بیوی کو اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اس قدر رقم لینے کی شرعاً اجازت ہے جس سے معروف طریقہ کے مطابق گزر اوقات ہو سکے۔


[1] ۶۵/الطلاق: ۷۔  

[2] صحیح مسلم، الحج: ۲۹۵۰۔

[3] صحیح بخاری، النفقات: ۵۳۶۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:425

محدث فتویٰ

تبصرے