سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(502) گنجے پن کی دوا لینا

  • 20151
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1023

سوال

(502) گنجے پن کی دوا لینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل گنجے پن کا ایک علاج دریافت ہوا ہے کہ بال اگائے جاتے ہیں، ایسا علاج شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بالوں کی پیوند کاری تو حرام ہے یعنی مصنوعی بالوں کو دوسرے بالوں کے ساتھ جوڑنا مصنوعی بالوں کو ہی استعمال کرنا شرعاً یہ فعل حرام اور ناجائز ہے، انصار کی ایک لڑکی بیمار ہوئی تو اس کے بال گر گئے، اہل خانہ نے مصنوعی بال پیوند کرنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اس عورت پر جو بال پیوند کرتی ہے یا کراتی ہے۔‘‘

 حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جب حج سے فراغت کے بعدمدینہ طیبہ تشریف لائے تو انہیں مصنوعی بالوں کا گچھا ملا تو انہوں نے خطبہ دیا اور فرمایا: ’’اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کدھر ہیں؟ بنی اسرائیل کی ہلاکت اسی وجہ سے ہوئی تھی کہ ان کی عورتوں نے ان مصنوعی بالوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔‘‘ [1]

 البتہ بال اگانے کا طریقہ طب جدید کا کشید کردہ ہے، یہ مصنوعی نہیں بلکہ اس طریقہ سے حقیقی بال اگائے جاتے ہیں۔ اس قسم کے علاج میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس کے متعلق وہ حدیث بطور دلیل پیش کی جا سکتی ہے کہ فرشتے نے ایک گنجے کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا تو اس کے خوبصورت بال اُگ آئے تھے، جیسا کہ ایک حدیث میں اس کا ذکر ہے۔‘‘ [2]

 اس حدیث کے پیش نظر ہمارا رجحان ہے کہ بالوں کو کاشت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ پیوند کاری حرام ہے۔


[1]  صحیح بخاری، اللباس: ۵۹۳۲۔  

[2]  صحیح بخاری، احادیث الانبیاء: ۳۴۶۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:420

محدث فتویٰ

تبصرے