سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(500) کسی سے پردہ کرنا کسی سے نہ کرنا

  • 20149
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 640

سوال

(500) کسی سے پردہ کرنا کسی سے نہ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری ہمشیرہ گھر میں رہتے ہوئے ہمارے بہنوئی سے پردہ کرتی ہے لیکن جب اکیڈمی میں پڑھانے کے لیے جاتی ہے تو وہاں موجود سٹاف یعنی مرد اساتذہ سے پردہ نہیں کرتی، اس کے متعلق قرآن و حدیث کی تعلیمات سے آگاہ کریں تاکہ ہماری ہمشیرہ جب پڑھانے کے لیے اکیڈمی جائے تو وہاں بھی پردہ کی پابندی کرے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے مرد و زن کا دائرہ عمل الگ الگ متعین کیا ہے تاکہ عملی زندگی میں کسی موقع پر ٹکراؤ کی صورت پیدا نہ ہو، کیونکہ اس ٹکراؤ میں جذبات و ہیجان میں بے راہ روی کا امکان ہے، خواتین کا دائرہ عمل اندرون خانہ مقرر کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَ قَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى﴾[1]

’’اور اپنے گھروں میں قرار پکڑے رہو، پہلے دور جاہلیت کی طرح اپنی زیب و زینت کا اظہار نہ کرتی پھرو۔‘‘

 اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت کے لیے اصلی مقام اس کا گھر ہی ہے، اس لیے جہاد، مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی اس پر فرض نہیں ہے، لیکن ہمارے ہاں عورت کو مردوں کے شانہ بشانہ چلانے کی غیر فطری کوشش کی جاتی ہے، پھر ظلم کی انتہا یہ ہے کہ مرد و زن کے اختلاط کو قرآن و حدیث سے ثابت کیا جاتا ہے، حالانکہ وہ گھر کی چار دیواری کی مالک و مختار ہے، گھر کے اندر تمام سرگرمیاں اس کے ماتحت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کو اندرون خانہ حجاب کی پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اور مرد حضرات کو تاکید گئی ہے کہ وہ گھر میں داخل ہونے سے قبل اجازت لیں خواہ وہ گھر ان کی حقیقی ماں ہی کا کیوں نہ ہو، اس کے مقابلہ میں مرد کا دائرہ کار بیرون خانہ ہے تاکہ اللہ کی وسیع زمین میں شریعت کی پابندی کرتے ہوئے ہر قسم کے کام سر انجام دے۔ میدان عمل کی اس تقسیم کے باجوود مرد و عوت کی ایک دوسرے کے میدان عمل میں آمد و رفت ناگزیر ہے، ہمارے معاشرہ میں اس کا موقع اکثر و بیشتر آتا رہتا ہے، ایسے حالات میں عورت کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ مرد کی اس آزاد مملکت میں جب قدم رکھے تو حجاب کے ساتھ ساتھ غض بصر کی مکمل پابندی کرے اور مرد حضرات کو بھی غض بصر کا پابند کیا گیا ہے تاکہ باہم نظروں کے ملنے یا ایک دوسرے کو دیکھنے سے ان میں صنفی کشش کی تحریک پیدا نہ ہو۔ غض بصر، اسلام کا ایسا پاکیزہ قانون ہے کہ اسے اختیار کرنے سے انسانی معاشرہ فواحش، منکرات اور دیگر خباثتوں سے نجات پا کر پاک و صاف ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’عورت ہر لحاظ سے قابل ستر ہے، جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے تاکتا ہے، تاہم اس کا اپنے گھر کے گوشہ میں رہنا اللہ کی رحمت کا باعث ہے۔‘‘ [2]

 اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو عریاں حالت میں دیکھ کر مرد شیطانی جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے لہٰذا عورت کو چاہیے کہ جب وہ کسی مجبوری کے پیش نظر گھر سے نکلے تو وہ مرد کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے تمام محرکات و عوامل سے اجتناب کرے، مرد حضرات کو تاکید کی گئی ہے کہ اگر انہیں نا محرم خواتین سے کوئی چیز مانگنے کی ضرورت پیش آئے تو پردے کی اوٹ میں کھڑے ہو کر مانگی جائے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ١ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ١﴾ [3]

’’اگر تمہیں کچھ مانگنا ہے تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب ہے۔‘‘

 اس تمہید کے بعد ہم صورت مسؤلہ کا جائزہ لیتے ہیں تو انتہائی تکلیف دہ معاملہ سامنے آتا ہے، یعنی ایک بیٹی گھر میں رہتے ہوئے اپنے بہنوئی سے پردہ کرتی ہے، لیکن جب وہ اکیڈمی میں پڑھانے کے لیے جاتی ہے تو وہاں مرد اساتذہ سے پردہ نہیں کرتی، حالانکہ پردے کے احکام ہر مقام پر یکساں ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں ہے، ہمارے لیے یہ بات انتہائی تعجب کا باعث ہے کہ عورت نے اپنے دائرہ عمل سے باہر قدم رکھا ہے، اگر کوئی ایسی مجبوری ہے تو ایسی اکیڈمی میں پڑھانے کا شوق پورا کر لیا جائے جہاں عملہ خواتین پر مشتمل ہو، اگر کسی مقام پر مردوں کا سامنا کرنا پڑے تو اپنے ستر و حجاب کی پابندی ناگزیر ہے، اس میں عورت کی عزت و ناموس اور عصمت و عفت کی حفاظت ہے، بہرحال پردہ عورت کے لیے ایسی حفاظتی جیکٹ ہے جو مردوں کی طرف سے نگاہ کے زہر آلود تیروں سے بچاتی ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بیٹی کو گھر اور باہر ہر جگہ شرعی پردہ کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)


[1] ۳۳/الاحزاب: ۳۳۔ 

[2] صحیح ابن خزیمہ:۱۶۸۵۔

[3] ۳۳/الاحزاب: ۵۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:418

محدث فتویٰ

تبصرے