سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(498) عریانی والے بازار میں جانا

  • 20147
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 719

سوال

(498) عریانی والے بازار میں جانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل تجارتی بازاروں میں صورت حال یہ ہوتی ہے کہ عورتیں عریاں قسم کا لباس پہنے ہوئے ہوتی ہیں، وہاں مرد و زن کا اختلاط بھی ہوتا ہے، اس قسم کے بازار میں جانے کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس قسم کے بازار میں ضرورت کے بغیر جانا درست نہیں ہے، ویسے بھی بازار کا شور و شغب ایک مسلمان کے لیے موزوں نہیں، بالخصوص جب وہاں اس قسم کی صورت حال سے دوچار ہونا پڑے جو سوال میں ذکر کی گئی ہے، تاہم اگر سخت ضرورت کے پیش نظر وہاں جانا ناگزیر ہو تو درج ذیل امور کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ 1) نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے، مسلمان کے لیے یہ ایک مذہبی فریضہ ہے۔ 2)نظریں جھکاتے ہوئے اور اسباب فتنہ سے بچتے ہوئے وہاںسے گزرے۔ 3)اپنے دین اور عزت کی حفاظت کی حرص لے کر اور شر کے وسائل سے دور رہتے ہوئے وہاں جائے اگر اس میں طاقت ہو تو اس قسم کے بازار میں برائی سے روکنے کے لیے جانا باعث اجر و ثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ اس امت کے متعلق فرماتا ہے:

﴿وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾[1]

’’تم میں سے ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو خیر و بھلائی کی طرف لوگوں کو دعوت دے، نیکی کی تلقین کرے اور برے کاموں سے روکے، یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جب لوگ برائی دیکھنے کے بعد اسے نہیں روکیں گے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزا میں انہیں بھی شامل کر لے۔‘‘ [2]

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے اس کی برائی بیان کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل میں ہی اسے برا خیال کرے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ [3]

 ان آیات و احادیث کے پیش نظر ایک مسلمان کسی سخت ضرورت کے پیش نظر بازار میں جا سکتا ہے البتہ اسے درج بالا آداب کو ضرور ملحوظ رکھنا ہو گا۔‘‘ (واللہ اعلم)


[1] ۳/آل عمران: ۱۰۴۔   

[2]  ابن ماجہ، الفتن: ۴۰۰۵۔

[3]  ابن ماجہ، الفتن: ۴۰۱۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:416

محدث فتویٰ

تبصرے