سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(494) بڑی قربانی سے کیا مراد ہے؟

  • 20143
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 627

سوال

(494) بڑی قربانی سے کیا مراد ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَفَدَينـٰهُ بِذِبحٍ عَظيمٍ ﴿١٠٧﴾... سورة الصافات

’’ہم نے ایک بڑی قربانی بطور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا۔‘‘

 اس بڑی قربانی سے کیا مراد ہے؟ بعض لوگ اس سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی مراد لیتے ہیں، وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حافظ بن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق متعدد اسرائیلی روایات بیان کی جاتی ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم کے بیان کے بعد کسی روایت کی ضرورت نہیں رہتی۔ چنانچہ اس واقعہ کو ایک ’’نمایاں کارنامہ‘‘ کٹھن امتحان کے طور پر بیان کیا ہے اور ذبح عظیم کا بطور فدیہ ذکر کیا ہے البتہ حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ذبح عظیم سے مراد ایک مینڈھا تھا۔[1]

 حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اسے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے، حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آواز دی گئی کہ آپ نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک سفید رنگ کا سینگوں اور سرمگیں آنکھوں والا مینڈھا ذبح ہوا پڑا ہے۔ [2]

 ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم بھی قربانی کے لیے مینڈھوں کی یہی قسم تلاش کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ ایک طویل روایت ہے جس سے محدثین کرام نے کئی ایک مسائل کو مستنبط کیا ہے، ہمارے نزدیک ذبح عظیم سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ مراد لینا ایک خاص مکتب فکر کے حاملین کا کشید کردہ مسئلہ ہے، احادیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس کے خلاف واقعہ ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت اور شہادت سے ہزاروں سال پہلے ذبح عظیم کا واقعہ ہو چکا تھا۔ (واللہ اعلم)


[1]  البدایہ والنھایہ، ص: ۱۴۹،ج۴۔  

[2]  مسند امام احمد،ص: ۲۹۷،ج۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:412

محدث فتویٰ

تبصرے