سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(492) اونٹ کی قربانی میں حصہ داروں کی تعداد؟

  • 20141
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 950

سوال

(492) اونٹ کی قربانی میں حصہ داروں کی تعداد؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اونٹ کی قربانی میں کتنے آدمی شریک ہو سکتے ہیں؟ ہمارے ہاں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اونٹ میں گائے کی طرح سات ہی حصہ دار ہو سکتے ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اونٹ کی قربانی میں دس افراد جبکہ گائے کی قربانی میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں جیساکہ حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں ہمراہ تھے تو قربانی کا وقت آگیا، ہم اونٹ میں دس آدمی اور گائے میں سات آدمی شریک ہوئے۔[1]

 اس سلسلہ میں ایک دوسری حدیث بھی مروی ہے: حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مقام ذوالحلیفہ میں تھے، مال غنیمت کے طور پر بکریاں اور اونٹ ہمارے ہاتھ لگے،لوگوں نے جلدی جلدی انہیں ذبح کر کے ہانڈیاں چڑھا دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا پھر آپ نے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دے کر انہیں تقسیم کیا۔ [2] البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’گائے سات آدمیوں کے طرف سے اور اونٹ بھی سات آدمیوں کی طرف سے قربان کیا جائے۔‘‘ [3]

 اس کے متعلق علما کا مؤقف ہے کہ ان کا تعلق ھدی سے ہے یعنی ان سے مراد وہ قربانی ہے جو حج کے موقع پر کی جاتی ہے، اس موقع پر ایک اونٹ میں صرف سات آدمی ہی شریک ہو سکتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے، صاحب استطاعت اونٹ میں سات اور مالی لحاظ سے کچھ کمزور حضرات اونٹ میں دس شریک ہو سکتے ہیں۔ اکیلا آدمی بھی اونٹ اور گائے کی قربانی کر سکتا ہے۔ بہرحال اونٹ میں دس افراد شریک ہو سکتے ہیں، اسے سفر کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، نیز اگر استطاعت ہو تو سات آدمی بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ البتہ ھدی کے اونٹ میں سات افراد ہی شریک ہوں گے۔ (واللہ اعلم)


[1] ابن ماجہ، الاضاحی: ۳۱۳۱۔

[2]  صحیح بخاری، الشرکہ: ۲۵۰۷۔

[3]  ابوداود، الضحایا: ۲۸۰۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:410

محدث فتویٰ

تبصرے