سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(475) اونٹ کو نحر کرنے کا مسنون طریقہ

  • 20124
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 741

سوال

(475) اونٹ کو نحر کرنے کا مسنون طریقہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربانی کے موقع پر اونٹ کو نحر کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ قرآن و حدیث کے مطابق وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن کریم کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ کو ذبح کرنے کے بجائے نحر کرنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا صَوَآفَّ١ۚ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا ﴾[1]

’’انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو ان سے کھاؤ۔‘‘

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ’’صواف‘‘ کی تفسیربایں الفاظ مروی ہے: ’’اونٹ کی ایک ٹانگ باندھ کر اسے کھڑا کرنا ہے۔‘‘

 اس کے نحر کا طریقہ یہ ہے کہ اونٹ کا بایاں گھٹنا باندھ کر اسے تین ٹانگوں پر کھڑا کر دینا چاہیے، پھر کوئی تیز دھار چیز اس کی گردن پر ماری جائے، جب آہستہ آہستہ خون بہہ جائے اور اونٹ ایک طرف گر جائے تواس کی کھال وغیرہ اتار دی جائے، یہ طریقہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اونٹ کی بائیں ٹانگ باندھ کر نحر کرتے تھے اور وہ باقی ٹانگوں پر کھڑا ہوتا تھا۔ [2]

 حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ اونٹ نحر کیے تھے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ اونٹوں کی گردنوں میں اپنے ہاتھ میں موجود چھوٹا نیزہ مارتے تھے۔ [3]

 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جس نے اونٹ کو ذبح کرنے کی غرض سے اسے بٹھا رکھا تھا انہوں نے اسے دیکھ کر فرمایا: اس کا گھٹنا باندھ کرا سے کھڑا کرو، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سنت ہے۔ [4]

 بہرحال اونٹ کو ذبح کرنے کے بجائے اسے نحر کرنا چاہیے جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں اس کا طریقہ بیان ہوا ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] ۲۲/الحج: ۳۶۔                   

[2]  ابوداود، لمناسک: ۱۷۶۷۔ 

[3]  صحیح مسلم، الحج:۱۲۱۸۔  

[4]  صحیح بخاری، الحج: ۱۷۱۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:400

محدث فتویٰ

تبصرے