سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(468) شادی کے بعد خاوند کی طرف نسبت کرنا

  • 20117
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 997

سوال

(468) شادی کے بعد خاوند کی طرف نسبت کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں معاشرتی طور پر خواتین شادی سے پہلے خود کو اپنے والد کی طرف منسوب کرتی ہیں مثلاً: ’’رقیہ محمود‘‘ یعنی محمود کی بیٹی رقیہ لیکن شادی کے بعد اس نسبت کو ترک کر کے اپنے خاوند کی طرف خود کو منسوب کرتی ہیں مثلاً ’’رقیہ عامر‘‘ یعنی عامرکی بیوی، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دور جاہلیت میں لوگ لے پالک کو اپنی طرف منسوب کر لیتے تھے اور اسی نسبت سے اسے پکارا کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی اور ہمیں آگاہ کیا کہ ﴿اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ١ۚ﴾[1]ان (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپوں کے نام سے ہی پکارا کرو اللہ کے ہاں یہی انصاف کی بات ہے۔ اس آیت کا تقاضا ہے کہ انسان مرد ہو یا عورت اس کی نسبت حقیقی باپ کی طرف ہونی چاہیے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے کہ لوگوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا جائے، پھر اس کے تحت حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن ہر غدار کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا۔ اورکہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے۔‘‘[2] شارح بخاری ابن بطال کہتے ہیں کہ باپ کے نام سے پکارنا ہی پہچان میں زیادہ واضح اور امتیاز میں زیادہ بلیغ ہے اور قرآن و حدیث کے دلائل بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں[3]جب قیامت کے دن باپ کی نسبت ہی تعارف کا ذریعہ ہو گی تو دنیا میں یہ نسبت اختیار کرنے میں کیا قباحت ہے، کتب حدیث میں جہاں فلاں بن فلاں کے نام استعمال ہوتے ہیں، اسی طرح عورتوں کے لیے فلانہ بنت فلاں کے الفاظ آئے حالانکہ ان میں اکثر خواتین شادی شدہ تھیں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا شادی سے پہلے بھی عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور شادی کے بعد بھی انہیں اسی نسبت سے پکارا جاتا تھا۔ کسی موقع پر ’’عائشہ محمد‘‘ نہیں کہا گیا، اس لیے ہمارا رجحان اسی طرف ہے کہ شادی کے بعد بھی خواتین کو اپنے باپ کی نسبت سے پکارا جانا زیادہ مناسب ہے، معاشرتی طور پر نئی نسبت کو اختیار کرنے میں کئی ایک قباحتیں ہیں مثلاً بچی جب اٹھارہ سال کی ہو جاتی ہے تو اس کا شناختی کارڈ باپ کے نام سے بنتا ہے، شادی کے بعد اسے تبدیل کرنے کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے اور خاوند کی نسبت سے نیا نشاختی کارڈ بنانا پڑتا ہے، جب میاں بیوی میں کسی وجہ سے علیحدگی ہو جاتی ہے تو مزید تکلیف سے دو چارہونا پڑتا ہے۔ کیونکہ قانونی کاغذات میں اس کا نام اپنے شوہر کے نام کے ساتھ منسلک ہوتا ہے جبکہ شوہر اس کے لیے اجنبی ہو چکا ہوتا ہے۔ جب وہ آگے کسی نئے مرد سے شادی کرتی ہے تو اسے مزید الجھن سے دو چار ہونا پڑے گا، جیسے جیسے اس کی زندگی میں خاوند وفات، طلاق اور خلع کی وجہ سے تبدیل ہوتے ہیں اسی طرح اس کی شناخت بھی تبدیل ہوتی رہے گی، اگر ہر بار شناختی کارڈ تبدیل کرانا پڑے تو یہ ایک درد سر ہے، دراصل مغربی تہذیب نے ہمارے ذہنوں کو خراب کیا ہے۔ اسلام نے تو ہماری شناخت باپ سے کی ہے جو کسی صورت میں تبدیل نہیں ہوتی، یہ نسبت دنیا اور آخرت میں برقرار رہے گی، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اسی نسبت کو برقرار رکھیں تاکہ پریشانیوں اور الجھنوں سے محفوظ رہیں، ہماری اسلاف خواتین کا بھی یہی طریقہ تھا اور اب بھی بعض مسلم خواتین اپنے نام کے ساتھ اپنے باپ کا نام لگانا ہی پسند کرتی ہیں۔ اسلامی طرز عمل کو اختیار کرنے میں خیر و برکت ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  ۳۳/الاحزاب:۵۔ 

[2] صحیح بخاری، الادب: ۶۱۷۷۔  

[3]  شرح بخاری، ص: ۳۵۴،ج۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:391

محدث فتویٰ

تبصرے