سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(460) طلاق کو مشروط کرنا

  • 20109
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2202

سوال

(460) طلاق کو مشروط کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو نے اس بچے کو آیندہ مارا تو تجھے طلاق ہے، جبکہ وہ حاملہ تھی چنانچہ میرے کہنے کے تیسرے دن اس نے بچے کو مارا اور شام کے وقت بچے کو جنم دیا، اب میرے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟ کیا میں اس سے رجوع کر سکتا ہوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طلاق کو کسی کام کے ساتھ مشروط کر دینے کو طلاق معلق کہا جاتا ہے، اگر کام کرنے سے پہلے وہ اس شرط کو ختم کر دے تو اسے یہ حق ہے کیونکہ جو شخص کوئی شرط عائد کر سکتا ہے وہ اس شرط کو ختم کرنے کا بھی مجاز ہے لیکن اگر وہ شرط کو برقرار رکھتا ہے تو بیوی کے وہ کام کرنے کے ساتھ طلاق واقع ہو جائے گی، پھر اسے دوران عدت رجوع کا حق حاصل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِيْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا١﴾[1]

’’اور ان کے خاوند اس مدت میں ان سے رجوع کرنے کے زیادہ حقدار ہیں، بشرطیکہ وہ اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں۔‘‘

 یعنی رجوع کر کے بیوی کو تنگ کرنا مقصود نہ ہو بلکہ اسے گھر میں آباد کرنے کا ارادہ ہو تو اسے رجوع کرنے کا شریعت نے حق دیا ہے۔ صورت مسؤلہ میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو مشروط طلاق دی اور وہ شرط پوری ہو گئی اس لیے یہ ایک طلاق شمار ہو گی ، پھراس کو دوران عدت رجوع کرنے کا حق تھا لیکن اتفاق سے اس نے اپنے بچے کو جنم دے دیا اب اس کی عدت بھی پوری ہو چکی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ١﴾[2]

’’اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔‘‘

 عدت کے ختم ہونے کے ساتھ ہی نکاح ختم ہو جاتا ہے، اب تجدید نکاح سے رجوع ممکن ہے، بشرطیکہ مطلقہ بیوی نکاح پر آمادہ ہو اور اس کا سرپرست بھی اس کی اجازت دے، نیز حق مہر بھی نیا ہو گا اس کے ساتھ گواہوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ان چار شرائط کے ساتھ اب نیا نکاح ہو سکتا ہے۔ تجدید نکاح کی رعایت بھی پہلی اور دوسری طلاق کے بعد ہے البتہ تیسری طلاق کے بعد کسی صورت میں رجوع نہیں ہو سکتا، مسئلہ کی وضاحت کے بعد ہم ضروری خیال کرتے ہیں کہ آپ کے ذہن نشین کروا دیں کہ طلاق کو مذاق خیال نہ کیا جائے بلکہ اس کا تصور لاتے ہوئے خوب سوچ و بچار کر لیا جائے کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟ خاوند، بچوں اور بیوی کے لیے کیا کیا مشکلات پیدا ہوں گی؟ یہ کوئی بجلی کا بلب نہیں ہے کہ ایک خراب ہونے کے بعد دوسرا لگا لیا جائے، نکاح ایک زندگی کا بندھن ہے، جو زندگی میں ایک مرتبہ ہوتا ہے۔ بہرحال طلاق دینے سے پہلے اس کے نتائج پر نہایت سنجیدگی سے غور کر لینا چاہیے تاکہ اس کے بعد ندامت و شرمساری اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ (واللہ اعلم)


[1] ۲/البقرۃ: ۲۲۸۔

[2] ۶۵/الطلاق:۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:386

محدث فتویٰ

تبصرے