سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(457) رضاعی بھائی کی بہن سے نکاح کرنا

  • 20106
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3886

سوال

(457) رضاعی بھائی کی بہن سے نکاح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 میرے بھائی نے ایک لڑکی کے ساتھ کسی عورت کا دودھ پیا ہے، کیا میں اس لڑکی سے نکاح کر سکتا ہوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 رضاعت کے متعلق ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ دودھ پینے والے کا تعلق دودھ پلانے والی کے تمام اصول و فروع اور اطراف سے قائم ہو جاتا ہے جب کہ دودھ پلانے والی کا تعلق صرف دودھ پینے والے اور اس کی فروع سے قائم ہوتا ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ دودھ پینے والا بچہ جب کسی عورت کا دودھ پیتا ہے تو عورت کا باپ، پینے والے کا نانا، اس کا خاوند، اس کا باپ، خاوند کے بھائی اس کے چچا اور دودھ پلانے والی کی اولاد پینے والے کے بہن بھائی بن جاتے ہیں، پھر جس طرح دودھ پینے والا پلانے والی کا بیٹا بن جاتا ہے اسی طرح دودھ پینے والے کے بچے دودھ پلانے والی کے پوتے اور پوتیاں شمار ہوں گے، البتہ دودھ پینے والے کے باپ، بھائی اور دیگر رشتے داروں کا دودھ پلانے والی سے کوئی رشتہ قائم نہیں ہو گا، یہی وجہ ہے کہ دودھ پلانے والی عورت، دودھ پینے والے کے باپ، چچا، ماموں اور بھائی سے شادی کر سکتی ہے اور دودھ پلانے والی کا خاوند دودھ پینے والے کی ماں، بہن، پھوپھی اور خالہ سے شادی کر سکتا ہے۔ کیونکہ ان کے درمیان دودھ یا نسب کا کوئی رشتہ قائم نہیں ہوا ہے۔

 امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کوئی آدمی اگر اپنے رضاعی بھائی کی بہن سے شادی کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔[1]

 صورت مسؤلہ میں ایک لڑکے نے کسی لڑکی کے ساتھ ایک عورت کا دودھ پیا ہے تو لڑکا اور لڑکی تو دودھ کے اعتبار سے بہن بھائی بن جائیں گے، ان کا باہمی نکاح حرام ہے البتہ لڑکے کا بھائی، اس لڑکی سے شادی کر سکتا ہے کیونکہ ان کے درمیان میں نسبی یا رضاعی کا کوئی رشتہ قائم نہیں ہوا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے ابو اھاب کی بیٹی ام یحییٰ رضی اللہ عنہا سے شادی کی، نکاح کرنے کے بعد ایک سیاہ فام لونڈی نے دعویٰ کر دیا کہ میں نے میاں بیوی دونوں کو دودھ پلایا ہے یعنی یہ دونوں دودھ کے اعتبار سے بہن بھائی ہیں، لہٰذا ان کا نکاح جائز نہیں ہے۔ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مسئلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تمہارا آپس میں نکاح کیونکر جائز ہو سکتا ہے جب کہ ایک عورت دعویٰ کرتی ہے کہ میں نے ان دونوں کو دودھ پلایا ہے۔‘‘ چنانچہ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے اس عورت سے علیحدگی اختیار کر لی تو اس نے دوسرے خاوند سے نکاح کر لیا۔ [2]

 علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے صراحت کی ہے کہ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کے ہمراہ دودھ پینے والی لڑکی نے پھر ان کے بھائی ظریب بن حارث سے شادی کر لی تھی۔[3]ان حقائق کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک لڑکی کے ہمراہ کسی عورت کا دودھ پیا ہے تو وہ لڑکی اس شخص کی رضاعی بہن ہے، جس نے اس کے ساتھ دودھ پیا ہے اور اس کے ساتھ اس کا نکاح نہیں ہو سکتا، البتہ دودھ پینے والے کے بھائی کے لیے جائز ہے کہ وہ اس لڑکی سے نکاح کر لے کیونکہ اس کا لڑکی کے ساتھ نسب اور رضاعت کا کوئی رشتہ قائم نہیں ہوا۔ (واللہ اعلم)


[1] المغنی،ص: ۳۱۹،ج۱۱۔       

[2] صحیح بخاری، العلم: ۸۸۔

[3]  عمدۃ القاری، ص: ۱۴۳،ج۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:383

محدث فتویٰ

تبصرے